خواص میں دعوت

انگریزی میگزین انڈیا ٹوڈے (2 دسمبر2002)دیکھا۔ اُس کے صفحہ 66-67 پر برطانی جرنلسٹ َسرمارک ٹلی (Mark Tully) کی تازہ کتاب پر تبصرہ شائع ہوا تھا۔ 302 صفحہ کی یہ کتاب پنگوئن بُکس نے چھاپی ہے۔ کتاب کا نام یہ ہے:

India in Slow Motion (2002)

اس کتاب میں انٹروڈکشن کے علاوہ گیارہ ابواب ہیں۔ اس کا پہلا باب رام کی نئی دریافت (The Reinvention of Ram)کے بارے میں ہے اور آخری باب کاعنوان ہے، گم شدہ جنت (Paradise Lost)۔ کتاب کا ایک باب صوفیوں اور اُن کے عقائد کے بارے میں ہے۔ اس باب کا عنوان یہ ہےThe Sufis and a Plain Faith:

اس کتاب کی ترتیب کے دوران سَرمارک ٹلی نے راقم الحروف کا دوبار انٹرویو لیا تھا۔ کتاب کے مذکورہ باب میں اُنہوں نے تفصیل کے ساتھ میرے خیالات کا ذکر کیا ہے جو کتاب کے صفحہ 156 سے لے کر161 تک موجودہے۔

سر مارک ٹلی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اُن کو یہ خیال ہوا کہ وہ اپنی کتا ب میں اسلامی تصوف (Sufi Faith) پر ایک باب شامل کریں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے سب سے پہلے یہ کوشش کی کہ تبلیغی جماعت کے مرکز میں جاکر موضوع کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ مگر وہ لوگ اس سلسلہ میں انتہائی حد تک غیر معاون (unhelpful)ثابت ہوئے۔ حتیٰ کہ انہوں نے یہ بتانے سے بھی انکار کردیا کہ دوسرا کون مسلمان اس معاملہ میں ان کے لیے مدد گار ہوسکتا ہے۔ (صفحہ 155)

سرمارک ٹلی نے لکھا ہے کہ اس کے بعد اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کوشش کیجیے تاکہ تبلیغ کاکوئی آدمی مل جائے جس سے میں تبلیغ کے بارے میں معلومات لے سکوں۔ ان کے کہنے پر میں نے کوشش کی لیکن مجھے کامیابی نہ ہوسکی۔ میں نے ان کو ٹیلیفون کیا اور اس سلسلہ میں معذوری ظاہر کی۔ اس کی رپورٹ سر مارک ٹلی نے ان الفاظ میں لکھی ہے:

(Maulana) agreed but a few days later rang me back to confess failure. ‘These people are not living in this century’, he said. ‘They don't know what the media is.’ (p. 161)

اس کے بعد وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے صوفی ازم پر تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کے چند جملے یہ ہیں:

Maulana Wahiduddin Khan proved far more approachable. When we rang him he willingly agreed to see us both, and there was no question of Gilly (my wife) not being welcome. (P. 156)

موجودہ زمانہ کے مسلم مصلحین نے تقریباً مشترک طورپر یہ غلطی کی ہے کہ اُنہوں نے عوام کو اپنی کوششوں کا نشانہ بنایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موجودہ زمانہ میں اسلام کی نمائندگی صرف عوام کی سطح پر ہوسکی۔ جہاں تک خواص کا تعلق ہے، وہ اسلام سے تقریباً بے بہرہ ہو کر رہ گئے۔

میں اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ زمانہ کے خواص (تعلیم یافتہ طبقہ) میں اسلام کا پیغام انتہائی حد تک قابلِ قبول بن چکا ہے، بشرطیکہ اس طبقہ کے سامنے اسلام کو اُس کی قابلِ فہم زبان میں پیش کیا جائے۔ بد قسمتی سے موجودہ زمانہ کے مسلم مصلحین لسانِ قوم میں بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس معاملہ میں اُن کی بے خبری کا حال یہ ہے کہ اُنہوں نے اکبر الٰہ آبادی جیسے ایک شاعر کو لسان العصر کا خطاب دے دیا۔ حالاں کہ اکبر الٰہ آبادی نہ تو عصر کو جانتے تھے، اور نہ اُن کی زبان لسان العصر کا مصداق تھی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom