قرآن کا مہینہ

قرآن کی سورہ البقرۃ میں بتایا گیا ہے کہ قرآن رمضان کے مہینہ میں اترا۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًى لِلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنَ الْہُدَى وَالْفُرْقَانِ (2:185)۔ یعنی رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا، ہدایت ہے لوگوں کے لاور کھلی نشانیاں راستہ کی اور حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا۔توسیعی مفہوم کے اعتبار سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے مہینہ میں اہلِ ایمان کو سب سے زیادہ قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

مطالعہ ٔ قرآن کے مقصد کو قرآن میں اس طرح بتایا گیا ہے: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ قرآن میں تدبر سے مراد قرآن پر عقلی غور و فکر ہے۔ اور عقلی غور و فکر کا مقصد یہ ہے کہ قرآن میں ذاتی نصیحت کے پہلوؤں کو دریافت کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں تدبر قرآن کا خاص مقصد ہے۔ قرآن کو ذاتی انطباق (self-application) کی نسبت سے دریافت کرنا۔

مثال کے طور پر آپ قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئےقرآن کی اس آیت تک پہنچتے ہیں: إِلَّا تَنْصُرُوہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللَّہُ إِذْ أَخْرَجَہُ الَّذِینَ کَفَرُوا ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّہَ مَعَنَا (9:40)۔ یعنی اگر تم رسول کی مدد نہ کرو گے تو اللہ خود اس کی مدد کرچکا ہے جب کہ منکروں نے اس کو نکال دیا تھا، وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا۔ جب وہ دونوں غار میں تھے۔ جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

قرآن کی اس آیت میں اس واقعہ کا ذکر ہے جو کہ ہجرت کے وقت پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا۔ اس واقعے کو اپنے ذہن میں رکھ کر جب آپ اس آیت پر غور کریں گے تو آپ سوچیں گے کہ اللہ کی رحمت ہر چیز تک وسیع ہے (وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ) الاعراف،7:156۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ کی جو رحمت ہجرت کے زمانے میں غار ثور کی تنہائی میں پیش آئی، ضروری ہے کہ وہ پیغمبر کے ساتھیوں کے لیے بھی مقدر ہو۔

آپ اگر اپنے ذہن کی تربیت اس انداز سے کریں تو ایسا ہو سکتا ہے کہ اللہ کے راستے میں چلتے ہوئے کبھی آپ پر یہ وقت گزرے کہ جہاں آپ ہوں اور آپ کا ایک ساتھی ہو، اور پھر آپ کو یہ یاد آئے کہ اہلِ ایمان کے لیے قرآن میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ ان کے اوپر اللہ کے فرشتے اترتے ہیں۔ اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمھارے مددگار ہیں۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَائِکَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِی کُنْتُمْ تُوعَدُونَ، نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ(41:30-31)۔یعنی جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے، پھر وہ ثابت قدم رہے، یقیناً ان پر فرشتے اترتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ تم نہ اندیشہ کرو اور نہ رنج کرو اور اس جنت کی بشارت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم دنیا کی زندگی میں تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔

ان باتوں کو سوچتے ہوئے عین ممکن ہے کہ آپ اپنے ساتھی سے کہہ اٹھیں کہ اندیشہ مت کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔اور وہ واقعہ یاد کریں جو کہ غار ثور میں پیش آیا تھا۔غار ثور کا یہ واقعہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں بیان ہواہے۔اس موقع پر رسول اللہ نے جو کہا، وہ یہ تھا:یَا أَبَا بَکْرٍ مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنِ اللہُ ثَالِثُہُمَا(صحیح مسلم، حدیث نمبر2381) َ۔یعنی اے ابوبکر، تمھارا اُن دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہو۔عین ممکن ہے کہ ایسے موقعہ پر آپ پر سکینہ نازل ہو اور اپنے ساتھی سے آپ یہ کہہ اٹھیں: یا صاحبی،مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنِ اللَّہُ ثَالِثُہُمَا۔ یعنی اے میرے ساتھی، تمھارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے، فرشتہ جن کا تیسرا ہے۔

علم کا آغاز معرفت ہے۔ معرفت کے بغیر علم ایک فن ہے۔ معرفت کے بعد علم وزڈم بن جاتا ہے۔ علم کے لیے معرفت کی اہمیت وہی ہے، جو اہمیت سائنس میں میتھمیٹکس کی ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom