دعوت کاایک عملی نمونہ
واردھا کی اس کانفرنس میں 24 نومبر 2003 کا دن اسلام کے لیے خاص تھا۔ اس میں میں واحد اسپیکر تھا۔ پروگرام کی ترتیب اس طرح بنائی گئی کہ دوپہر سے پہلے کے سیشن میں میں نے اسلام پر ایک تعارفی تقریر کی جو تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔ دوپہر بعد کاسیشن سوال و جواب کے لیے رکھا گیا تھا۔ حاضرین کی طرف سے اسلام پر مختلف قسم کے سوالات کئے گئے جن کے میں نے جواب دئے۔
اپنی تقریر میں میں نے پہلے قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام کا سادہ تعارف پیش کیا۔ اس کے بعد یہ بتایا کہ فنڈمنٹلزم وہی چیز ہے، جس کو قرآن و حدیث میں غلو کہا گیا ہے۔ اور غلو (extremism) کو اسلام میں ہلاکت خیز برائی بتایا گیا ہے۔ اس کے بعد میں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ اسلام کے مطابق، پر امن سماج بنانے کا فارمولا کیاہے۔
سوال و جواب کے سیشن میں لوگوں نے کافی دلچسپی کے ساتھ حصہ لیا۔ بہت سے سوالات کئے گئے جن کا میں نے جواب دیا۔ایک سوال یہ تھا کہ میڈیا کے مطابق، اسلامی مدرسوں میں ٹررزم کی تعلیم دی جاتی ہے،اور وہاں ٹررسٹ تیار کئے جاتے ہیں۔ میں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں خودمدرسہ کاایک پروڈکٹ ہوں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مدرسہ کا کوئی تعلق ٹررزم سے نہیں ہے۔ کم از کم انڈیا میں مجھے کوئی ایسا مدرسہ معلوم نہیں جہاں مدرسہ کے نظام کے تحت ٹررزم کی تعلیم دی جاتی ہو۔ مدرسہ میں کیسے لوگ تیار کئے جاتے ہیں، اس کا اندازہ مجھ کو دیکھ کر آپ کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مدرسہ صرف مذہبی تعلیم کے لیے ہے۔ وہاں کے نصاب یا وہاں کے نظام کا کوئی بھی تعلق اس چیز سے نہیں جس کو آج کل ٹررزم کہا جاتا ہے۔
ایک نوجوان نے کہا کہ ہم نے کتاب میں پڑھا ہے کہ اسلام کے پیغمبر نے خود حملہ کیا اور لڑائی کی پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ایک امن پسند انسان تھے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے میں نے پوچھا کہ آپ نے یہ بات کس کتاب میں پڑھی ہے۔ وہ کسی کتاب کا نام نہ بتاسکے۔ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات واقعہ کے خلاف ہے۔ پیغمبر اسلام نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ وہ خود کسی کے اوپر حملہ کریں۔ ان کی پالیسی ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ اگر فریق ثانی کی طرف سے جارحیت ہو تو اپنے بچائو کے لیے جنگ کی جاسکتی ہے۔ آپ نے دفاعی جنگ بھی اس وقت کی جب کہ اس کے سوا کوئی اور صورت باقی نہیں رہی تھی۔ مگر جہاں تک خود اپنی طرف سے حملہ کرنے کی بات ہے تو پیغمبر نے نہ ایسا کبھی کیا اور نہ انہوں نے اس کی تعلیم دی۔
میں نے اپنی تقریر میں آغازِ اسلام کی مختصر تاریخ بتائی۔ پیغمبر اسلام کے مکی دور اور مدنی دور کا تذکرہ کیا۔ قرآن اور حدیث سے متعارف کرنے کی کوشش کی۔ اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ پیش کیا۔ آخر میں میں نے کہا کہ اسلام کو درست طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اسلام اورمسلمانوں میں فرق کریں۔ آپ اسلام کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپ ایسا ہرگز نہ کریں کہ مسلمان جو کچھ کرتے ہیں اُس کو دیکھ کر سمجھ لیں کہ اسی کا نام اسلام ہے۔
دوپہر بعد کا پروگرام سوال و جواب کے لیے تھا۔ اس میں شرکاء نے اپنے اپنے سوالات اسلام کے بارے میں پیش کیے۔ میں نے دیکھا کہ لوگ ایک سوال اور ایک جواب کے اُصول پر سختی سے کار بند ہیں۔ کسی نے بھی میرے جواب کے بعد دوبارہ سوال کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ایک سوال یہ تھا کہ مسلمان اپنے عقیدہ کے مطابق، ہندوئوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ ایسی حالت میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان نارمل تعلقات کیسے قائم ہوسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق، ہندو یا دوسرے مذہبی گروہ کافر نہیں ہیں، بلکہ وہ انسان ہیں۔ قرآن میں بار بار لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے اے انسان، اور اے انسانو، کے الفاظ آئے ہیں۔ پیغمبر کے اصحاب پیغمبر کی وفات کے بعد عرب کے باہر ایشیا اور افریقہ کے مختلف ملکوں میں پھیل گئے۔ ہرجگہ اُنھوں نے یہ کیا کہ وہاں کے باشندے خود اپنے آپ کو جو نام دیے ہوئے تھے وہی نام اصحابِ پیغمبر نے بھی اُنہیں دیا۔ مثلاً مسیحی کو مسیحی، یہود کو یہود، رومی کو رومی، مجوس کو مجوس، بدھسٹ (بوذا) کو بدھسٹ، وغیرہ۔
یہی اس معاملہ میں اسلام کا طریقہ ہے۔ ہندستان میں مختلف مذہبوں کے ماننے والے لوگ بستے ہیں۔ اسلام کے مطابق، مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہرگروہ کو اُسی نام سے پکاریں، جو اُن کا اپنا اختیار کردہ نام ہے۔ مثلاً ہندو، سکھ، مسیحی، پارسی، جینی، وغیرہ۔ مسلمانوں کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ ان گروہوں کو کافر کے لفظ سے پکاریں۔ یہی اس معاملہ میں اسلام کی تعلیم ہے۔
گاندھیائی سینٹر میں میری تقریر کے بعد جو سوالات ہوئے وہ زیادہ تر اسی قسم کے سوالات تھے جو دوسرے غیر مسلم اجتماعات میں کئے جاتے ہیں۔ مثلاً بابری مسجد، برقعہ، مدرسوں میں عسکری تربیت وغیرہ۔ اسی قسم کا تجربہ مجھے مسلمانوں کے اجتماعات میں بھی ہوا۔ مسلمانوں کے اجتماع میں جب میں تقریر کرتا ہوں اور اس کے بعد سوال کا وقفہ دیا جاتا ہے تو وہاں بھی زیادہ تر ایک ہی قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں۔ مثلاً بابری مسجد، فرقہ وارانہ فساد، وندے ماترم، مسلم پرسنل لا وغیرہ۔ میں نے سوچا کہ آخر لوگ یکساں قسم کے سوالات کیوں کرتے ہیں۔ میری سمجھ میں آیا کہ اس کا راز اخبارات ہیں۔ مسلمان اور غیر مسلم دونوں اخباروں کے ذریعہ اپنی رائے بناتے ہیں۔ اخباروں میں عام طور پر جو باتیں آتی رہتی ہیں وہی باتیں ان کے ذہن میں ہوتی ہیں، اور انہی کے بارے میں وہ سوال کرتے ہیں۔ یہ طریقہ ذہنی ارتقاء کے لیے بہت بڑی رکاوٹ ہے۔