مجتہدانہ اسلوبِ دعوت
17مئی 2003 کو دہلی میں ایس آئی او (SIO) کے دفتر میں میرا ایک پروگرام تھا۔ یہاں مجھے اسلام پسند نوجوانوں سے گفتگو کا موقع ملا۔ ایک نوجوان مسٹر شمشاد احمد نے سوال کیا کہ آج کے تعلیم یافتہ طبقہ کو کس طرح موثر انداز میں اسلام کا پیغام پہنچایا جائے۔ یہی سوال زیادہ تر گفتگو کا موضوع رہا۔ میں نے کہا کہ عام طور پر یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ اسلام آج کی دنیا میں کمتر ذہنی سطح کے لوگوں کی دلچسپی کا موضوع بن کر رہ گیا ہے، اعلیٰ ذہنی سطح کے لوگ اسلام کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اس کا سبب مدعو کے اندر نہیں بلکہ داعی کے اندر ہے۔
دعوت کے نام پر موجودہ زمانہ میں بہت سی سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر یہ سرگرمیاں وقت کے اعلیٰ فکر ی مستویٰ(intellectual level) کے مطابق نہیں۔ ان دعوتی سرگرمیوں میں کوئی فضائل کی کہانیاں سنا رہا ہے۔ کوئی فخر پسندی کی غذا دے رہا ہے۔ کوئی اسلام کو سیاسی غلبہ کا موضوع بنائے ہوئے ہے۔ کوئی ملی مسائل پرتقریر کرنے کو دعوت سمجھے ہوئے ہے۔ کوئی کمیونٹی ورک میں مشغول ہے اور اس کو دعوہ ورک کا نام دیے ہوئے ہے۔ اس قسم کا انداز اعلیٰ ذہنی سطح کے لوگوں کو اپیل نہیں کرسکتا اس لیے وہ اس کی طرف متوجہ بھی نہیں ہوتے۔
قرآن میں دعوتی کلام کا معیار یہ بتایا گیا ہے کہ وہ قُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (4:63)کا مصداق ہو، یعنی ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔ اس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ وہ مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرے۔ موجودہ زمانہ کے داعیوں کا کلام جدید انسان کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتا۔ اس لیے اسلام ان کے لیے قابل غور چیز بھی نہیں بنتا۔ آج دنیا میں ہر جگہ لوگ اسلام قبول کررہے ہیں مگر یہ زیادہ تر متوسط طبقہ کے لوگ ہیں۔ بہت کم ایسے افراد ہوں گے، جو مثبت معنوں میں ذہنی انقلاب کے بعد اسلام میں داخل ہوئے ہوں۔ جدید تاریخ میں ایسے قلیل افراد کی ایک مثال مجھے ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیائے میں ملتی ہے۔ وہ ایک سچے متلاشی ٔ حق تھے۔انہوں نے اپنے گہرے ذاتی مطالعہ سے اسلام کو سمجھا اور اس کو قبول کیا۔ ان کا واقعہ میں نے اپنی کتاب (Islam Rediscovered) میں نقل کیا ہے۔
پچھلی صدیوں میں اور موجودہ زمانہ میں بڑی تعداد میں لوگ اسلام کے دائرہ میں داخل ہوئے۔ مگر یہ لوگ اسلام کی جدید تاریخ بنانے کا باعث نہ ہوسکے۔ مسلمانوں کی جدید نسلوں کا سفر بدستور زوال کی طرف جاری رہا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ تمام نو مسلم ردِّ عمل کی نفسیات کے تحت اسلام میں داخل ہوئے۔مثال کے طورپر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اعلیٰ ذہنی صلاحیت کے آدمی تھے۔ وہ اسلام قبول کرنا چاہتے تھے۔ لیکن مہاتما گاندھی اوردوسرے ہندو لیڈروں کی مداخلت سے ایسا نہ ہوسکا۔ تاہم اگر وہ اسلام قبول کرتے تو مجھے اُمید نہیں کہ ان کا قبول اسلام مثبت معنوں میں کسی جدید اسلامی تاریخ کے آغاز کا سبب بن سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی طرف ان کا میلان برہمنزم کے خلاف ردّ ِعمل کے تحت ہواتھا۔ایسی حالت میں اگر وہ اسلام قبول کر لیتے تب بھی صرف یہ ہوتا کہ وہ اسلام کے اسٹیج سے برہمنزم کے خلاف ایک محاذ کھول دیتے۔ مثبت معنوں میں وہ اسلام کی کوئی انقلابی خدمت نہ کر پاتے۔ جیسا کہ بدھزم کو قبول کرنے کے بعد اُنہوں نے کیا۔
اس معاملہ کی ایک مثال وہ تعلیم یافتہ نو مسلم افرادہیں جنہوں نے موجودہ زمانہ میں اسلام قبول کیا ہے۔ میرے علم کے مطابق، یہ سب کے سب ردّ عمل کی نفسیات کے تحت اسلام کی طرف آئے۔ اس لیے وہ مثبت معنوں میں اسلام کی جدید تاریخ بنانے کا ذریعہ نہ بن سکے۔ان میں سے کوئی مسلمانوں کے کسی کمیونٹی ورک میں لگا ہوا ہے، اور کوئی مفروضہ مسلم دشمنوں کے خلاف تقریر کررہا ہے۔موجودہ زمانہ کے معروف نو مسلموں میں سے اکثر کو یا تو میں نے سنا ہے یا پڑھا ہے یا ان سے ملاقات کی ہے۔ مگر میرے تجربہ کے مطابق، یہ سب لوگ کسی نہ کسی طور پر رد عمل کی نفسیات کے تحت اسلام کی طرف آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قبول اسلام کے بعد بھی ان کے سینہ میں غیرقوموں کے خلاف کدورتیں ختم نہیں ہوئیں۔ وہ اب بھی ردّ ِعمل کی بولی بول رہے ہیں۔ مثلاً امریکا کے حمزہ یوسف اور سراج وھّاج، جرمنی کے مرادہاف مین، برطانیہ کے یوسف اسلام، ہندستان (کیرلا) کی ڈاکٹر ثریا، وغیرہ۔
میرے مطالعہ کے مطابق،موجودہ زمانہ کے خود مسلم داعیوں اوررہنماؤں کا حال بھی تقریباً یہی ہے۔ موجودہ زمانہ میں جتنے بھی عرب یا غیر عرب علماء اور مفکرین اسلام کی خدمت کے لیے اُٹھے وہ کسی نہ کسی اعتبار سے ردِّ عمل کی نفسیات کے تحت اُٹھے۔ کوئی استعمار کے مسئلہ سے بھڑ ک اُٹھا۔ کوئی صہیونیت کی زمین سے اُبھرا۔ کسی کو مغربی تہذیب کے غلبہ نے بے چین کردیا۔ کوئی ہندو خطرہ یا غیرہندو خطرہ کے خلاف مجاہد بن گیا۔ کوئی مسلمانوں کی سیاسی مغلوبیت پر بے برداشت ہو کر تحریک چلانے لگا، وغیرہ۔ جب کہ داعی وہ ہے جو ابدی حقائق کی دریافت سے اُبھرے، نہ کہ وقتی مسائل کے ہنگاموں سے۔
دعوت کے مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ دعوت کے دو مختلف اسلوب ہیں — مقلدانہ اسلوب اور مجتہدانہ اسلوب۔ اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں جو دعوتی کوششیں ہورہی ہیں وہ سب کی سب مقلدانہ اسلوب پر ہو رہی ہیں۔ اس قسم کے اسلوب سے صرف تقلیدی مزاج کے لوگ ہی متاثر ہوسکتے ہیں، اور وہی اس سے متاثر ہورہے ہیں۔ جدید طبقہ مجتہدانہ اسلوب چاہتا ہے، مگر مجتہدانہ اسلوب میں دعوتی کام سرے سے نہیں ہو رہا ہے، اس لیے جدید طبقہ اسلام کی طرف مائل بھی نہیں ہو رہا ہے۔اس بنا پر اسلامی دعوت اور جدید طبقہ کے درمیان ایک قسم کا ذہنی بُعد (intellectual gap) پیدا ہوگیا ہے۔ دعوتی عمل کو تعلیم یافتہ طبقہ کے درمیان موثر بنانے کے لیے اس بُعد کو ختم کرنا ضروری ہے۔
پچھلے دنوں میری ملاقات بہار کے ایک صاحب ڈاکٹر اکرام الحق سے ہوئی۔ وہ ایم ڈی کی ڈگری لیے ہوئے تھے۔ انہیں اسلامیات کے مطالعہ کا شوق ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں نے انگریزی اور اردو کی تقریباً تمام تفسیریں پڑھی ہیں مگر مجھے ان تفسیروں سے اطمینان نہیں ہوا۔ اس قسم کا احساس موجودہ زمانہ کے اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تفسیریں زیادہ تر تقلیدی اسلوب میں لکھی گئی ہیں۔ میرے علم کے مطابق، حقیقی معنوں میں مجتہدانہ اسلوب میں کوئی تفسیر ابھی تک لکھی نہیں گئی۔
میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ قرآن کی ایک آیت ہے:کُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَہَا اللَّہُ(5:64)۔یعنی جب کبھی وہ لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اس کو بجھا دیتا ہے۔ اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ جدید امن پسند طبقہ کے لیے بے حد پرکشش ہے، مگر کسی بھی عربی یا اردو یا انگریزی تفسیر میں اس کی معنویت کو کھولا نہیں گیا ہے۔ عام طورپر اس آیت میں قدیم یہود کے معاملہ کو بتایا جاتا ہے۔ گویا کہ تمام مفسرین اس آیت کو زمانی مفہوم میں لے رہے ہیں۔ اس طرح یہ آیت بظاہر قدیم زمانہ کی ایک گزری ہوئی داستان بن کر رہ گئی ہے۔ نتیجۃً خود قرآن بھی غیر جانبدار قاری کو زمانۂ ماضی کا ایک قصہ معلوم ہوتا ہے جس میں آج کے لیے کوئی رہنمائی موجود نہ ہو۔
قرآن کو سمجھنے کے لیے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اس میں جو بات قدیم ریفرنس میں کہی گئی ہے، اس کوآج کا ایک مفسر جدید حوالہ (modern context) میں دیکھ سکے، وہ اس آیت کا نیاانطباق (reapplication) دریافت کرسکے۔اس اعتبار سے غور کیجیے تو قرآن کی مذکورہ آیت میں ایک ابدی اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اہل اسلام کی پالیسی یہ ہونا چاہئے کہ دوسرے لوگ جنگ چھیڑیں تو وہ حسنِ تدبیر سے اس کو اوائڈکرنے کی کوشش کریں، نہ یہ کہ خود بھی جنگ میں الجھ جائیں:
Muslims must adopt the policy of avoiding war rather than of indulging in war.
موجودہ زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم اور نو مسلم دونوں کے درمیان کمیونٹی کاز (community cause) کی دھوم ہے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی حقیقی معنوں میں ڈوائن کاز (divine cause) کے لیے تڑپنے والا، اس کے لیے کام کرنے والا نظرنہیں آتا۔ حتیٰ کہ ہزاروں کتابیں ہرجگہ چھپ رہی ہیں، مگر میرے علم کے مطابق، کوئی بھی کتاب انسانیت عامہ کو موثر انداز میں خطاب کرنے والی نہیں۔
موجودہ زمانہ کا سب سے زیادہ اندوہناک واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں دعوت الی اللہ کا عمل سرے سے وجود ہی میں نہ آسکا۔ کچھ مسلمان یا مسلم جماعتیں بظاہر دعوت کے نام پر سرگرم ہیں، مگر یقینی طورپر وہ دعوت الی اللہ کا عمل نہیں۔ یہ لوگ اصلاًکوئی اور کام کررہے ہیں جس کا دعوت الی اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کوانہوں نے دعوت کاعنوان دے دیا ہے۔
مسلمانوں کی موجودہ تاریخ کا دعوت الی اللہ سے خالی ہونا کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کے اسباب نہایت گہرے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئیں، یا جو اسلامی لٹریچر تیار ہوا، ان میں دعوت الی اللہ کو سرے سے حذف کردیا گیا۔ دعوت الی اللہ کیا ہے اور اس کے لازمی اجزاء کیا ہیں، یہ قرآن میں نہایت واضح طورپرموجود ہے۔ مگر بعد کے زمانہ میں جو تفسیریں لکھی گئیں ان میں یہ سب چیزیں یا تو منسوخ کردی گئیں یا ان کی تفسیر درست طورپر نہ ہوسکی۔
مثلاً دعوت کے لیے ضروری ہے کہ داعی دوسرے لوگوں کو اپنی قوم سمجھے، جیسا کہ قرآن کے بیان کے مطابق پیغمبروں نے سمجھا۔ مگر بعد کے زمانہ میں دوسرے گروہوں کو کافر قرار دے کر انہیں غیر قوم کے خانہ میں ڈال دیاگیا۔ اسی طرح دعوت کے لیے ضروری ہے کہ مدعوکی زیادتیوں پر یک طرفہ صبر کیا جائے۔مگر تفسیروں میں صبر کے حکم کو جہاد سے پہلے کے دور کی چیز قرار دے دیا گیا۔ اسی طرح دعوت کے لیے تالیف ِ قلب لازمی طورپر ضروری ہے۔ مگر بعد کی تفسیروں میں تالیف قلب کے اصول کو ہمیشہ کے لیے منسوخ قرار دے دیاگیا۔ دعوت کے لیے ضروری ہے کہ اس کو مَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ (الشعراء، 26:109)کے اصول پر چلایا جائے، یعنی میں تم سے اس دعوتی عمل پر کوئی اجر نہیں مانگتا ہوں۔ مگر موجودہ زمانہ میں دعوت کے ساتھ ملّی حقوق کی مطالباتی مہم کو جوڑ دیا گیا، وغیرہ۔شکایتی اور احتجاجی باتیں قاتل ِ دعوت ہیں، نہ کہ معاونِ دعوت۔
دعوت الی اللہ کے لیے قرآن کی شرطوں کو ملحوظ رکھے بغیر دعوت کا کام کرنا ایک مضحکہ خیز عمل ہے۔ اس کو دعوت الی اللہ کا مقدس نام ہر گز نہیں دیا جاسکتا۔ اس صورتِ حال کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ مقلدانہ ذہن کو توڑ کر مجتہدانہ ذہن کے تحت سوچا جائے۔ اس کے بغیر دعوت الی اللہ کاعمل کبھی زندہ نہیں ہوسکتا۔