سیاحت: دعوتی سفر
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عَنْ أَبِی أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، ائْذَنْ لِی فِی السِّیَاحَةِ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ سِیَاحَةَ أُمَّتِی الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ تَعَالَى(سنن ابو داؤ، حدیث نمبر 2486)۔ یعنی ابو امامہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے خدا کے رسول، مجھے سیاحت کی اجازت دیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: بیشک میری امت کی سیاحت اللہ کے راستے میں جہاد ہے۔
اس حدیث میں جہاد کا لفظ مسلح قتال کے معنی میں نہیں لیا جاسکتا۔ اس لیے کہ مسلح قتال ایک فرد کا عمل نہیں ہے، وہ ایک اجتماعی عمل ہے، جو ایک قائم شدہ حکومت کے نظم کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔ جب کہ اس حدیث میں جس عمل کا ذکر ہے، وہ ایک انفرادی عمل ہے۔ جہاد بمعنی قتال اجتماعی عمل ہوتا ہے، نہ کہ کوئی انفرادی عمل۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں سیاحت سے مراد دعوتی سفر ہے۔ دعوت کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ آدمی مقامی طور پر کسی سے مل کر اس کو توحید اور آخرت کا پیغام دے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی سفر کرکے ایک مقام سے دوسرے مقام پر جائے، اور توحید اور آخرت کا پیغام ان غیر ہم وطنوں کو پہنچائے۔
دعوتی سفر کسی سفر کے دوران اتفاقی ملاقات کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک مومن ذاتی طور پر یا اجتماعی طور پر منصوبہ بند انداز میں ایک مقام سے دوسرے مقام کا سفر کرے۔ وہ دعوتی ضرورت کے تحت تیاری کرے، اور منصوبہ بند انداز میں مقام سفر کے لوگوں تک دعوت اور آخرت کا پیغام دے، خواہ زبانی طور پر یا لٹریچر کے ذریعے یا مدعو کی زبان میں قرآن کا ترجمہ ڈسٹری بیوٹ کرنے کی صورت میں۔سفر کے ذریعے دعوت کا دوسرا نام دعوہ آن دی موو (dawah on the move) ہے۔