ایک دعوتی گفتگو
احمد آباد کے سفر (جنوری 2003)میں محمد حسن جوہر صاحب کے گھر پر کچھ تعلیم یافتہ ہندوؤں سے ملاقات ہوئی۔ مسٹر چونی اور مسٹر ویدیا، وغیرہ۔ اُن کا ایک سوال یہ تھا کہ خدا کا تصور اسلام میں کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اسلام میں ادوئت واد کا تصور نہیں ہے۔ بلکہ اسلام میں دوئت واد کا تصور ہے، یعنی خالق اورمخلوق دونوں ایک نہیں ہیں، بلکہ دونوں ایک دوسرے سے مکمل طورپر الگ ہیں۔ اس سلسلہ میں میں نے توحید کے عقیدہ کی کچھ تفصیل بیان کی۔
ان کا ایک سوال یہ تھا کہ آپ لوگ قرآن کو آخری کتاب مانتے ہیں جو کہ چودہ سو سال پہلے اُتاری گئی۔ انسان کے حالات تو بار بار بدلتے رہتے ہیں۔ پھر بدلے ہوئے حالات میں دوسری کتاب کیوں ضروری نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اس عقیدہ سے تو ذہنی ارتقا رک جاتا ہے جب کہ ہندو ازم میں ایسا عقیدہ نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی ارتقاء جاری رہتا ہے۔
میں نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ ہم قرآن کو آخری کتاب مانتے ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ اسلام کی ایک اہم تعلیم وہ ہے جس کو اجتہاد کہا جاتا ہے۔ اجتہاد کا مطلب یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں اسلام کی ابدی تعلیمات کا از سرِ نو انطباق(re-application) دریافت کیاجائے۔ اس طرح اجتہاد کا اصول اسلام کی ابدیت کو مسلسل باقی رکھتا ہے۔(ماہنامہ الرسالہ،احمدآبادکا سفر، مئی2003)