تمکین فی الارض کا معاملہ
قرآن کی سورہ نمبر 22 میں اللہ تعالی نے فرمایا: الّذین إن مکّنّاہم فی الأرض، أقاموا الصلاۃ وآتوا الزّکاۃ، وأمروا بالمعروف، ونہو ا عن المنکر (الحج: 41)۔ یعنی وہ لوگ جن کواگر ہم زمین میں غلبہ دیں، تو وہ صلاۃ کا اہتمام کریں گے، اور زکات ادا کریں گے، اورمعروف کا حکم دیں گے، اور منکر سے روکیں گے۔
قرآن کی اِس آیت میں پہلی قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر ہم ان کو زمین میں غلبہ دیں تو وہ فلاں فلاں کام کریں گے۔ اِس آیت میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اے مسلمانو، تم جہاد کرکے زمین میں سیاسی غلبہ حاصل کرو، تاکہ تم اسلامی احکام پر مبنی نظام قائم کرو۔ قرآن کی اِس آیت سے سیاسی انقلاب کا نصب العین نکالنا، واضح طورپر ایک بے اصل تفسیر ہے، اس کا اِس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔
احکامِ شریعت کے معاملے میں قرآنی اصول تکلیف بقدرِ وسع (البقرۃ: 286) پر مبنی ہے، یعنی استطاعت کے بقدر کام کا مکلَّف ہونا۔ کسی موجود صورتِ حال میں مسلمان جن احکامِ شریعت پر بالفعل عمل کرسکتے ہوں، اُسی کو وہ عملاً انجام دیں گے۔ اِس کے بعد ان کی جو ذمے داری ہے، وہ دعوت الی اللہ ہے، یعنی کامل امن پسندی اور یک طرفہ خیر خواہی کے ساتھ وہ کام کرنا جس کو اِنذار اور تبشیر کہاگیا ہے۔
شریعت کے کچھ احکام وہ ہیں جن کا تعلق افراد سے ہے، اور کچھ احکام وہ ہیں جن کا تعلق معاشرے سے۔ ہر مسلمان کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی ذات کے معاملے میں شریعت کے احکام کو پوری طرح اختیار کرے۔ تاہم جہاں تک اجتماعی احکام، یا معاشرتی احکام کا تعلق ہے، اُن کا معاملہ معاشرے کی داخلی صورتِ حال پر موقوف ہے۔ معاشرہ اگر قبولیت (acceptance) کے لیے تیار ہو، تو اس کے اندر اجتماعی احکام نافذ ہوں گے، اور اگر معاشرہ قبولیت کے لیے تیار نہ ہو، تو اجتماعی احکام کے نفاذ کے لیے انتظار کیا جائے گا۔ یہ انتظار اُس وقت تک جاری رہے گا، جب تک کہ معاشرے کے اندر قبولیتِ احکام کا مزاج پیدا نہ ہوجائے۔