سیروسیاحت
قرآن میں انسان کی مطلوب صفات میں سے ایک صفت سیرو سیاحت بتائی گئی ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 22 میں بتایاگیا ہے کہ زمین میں سیر اور سفر کرنے سے عقل میں اضافہ ہوتا ہے (الحج: 46)۔ قرآن کی سورہ نمبر 9 میں اہلِ ایمان کی صفات میں سے ایک صفت سیاحت بتائی گئی ہے (التوبۃ: 112)۔
قرآن کے اِن بیانات کے مطابق، سیر و سیاحت ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ سیر اور سیاحت کے ذریعے تجربات حاصل ہوتے ہیں، اور تجربات ہر انسان کے لیے ذہنی اور روحانی ترقی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ کتابوں کے مطالعے سے آدمی کو معلومات حاصل ہوتی ہیں، اور تجربات کے ذریعے آدمی کی ذہنی ترقی اور روحانی بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔
موجودہ زمانے میں سیر وسیاحت(toursim) ایک مستقل انڈسٹری بن گئی ہے۔ لیکن یہ سیروسیاحت زیادہ تر تفریح اور آؤٹنگ (outing) کے لیے ہوتی ہے۔ قرآن کا مطلوب سفر وہ ہے جو دنیا کے واقعات سے سبق لینے کا ذریعہ بن جائے، جو آدمی کی پختگی (maturity) میں اضافہ کرنے والا ہو، جو آدمی کے اندر وہ گہرائی پیدا کرے جس کو بصیرت اور معرفت کہاجاتاہے۔
آدمی اگر سفر نہ کرے تو وہ صرف اپنے مقامی حالات سے باخبر ہوتا ہے، اس کو اپنی تربیت کے صرف محدود مواقع ملتے ہیں، لیکن جب وہ اپنے مقامی ماحول سے نکل کر باہر کی دنیا میں جاتا ہے تو اس کو اپنی تربیت کے عالمی مواقع حاصل ہوجاتے ہیں۔ اس کے اندر آفاقی نظر پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ مختلف قوموں کے واقعات سے عبرت اور نصیحت لینے کے قابل ہوجاتا ہے۔ پہلے اگر اس کا انٹریکشن (interaction) مقامی دائرے تک محدود تھا، تو سفر اس کو بین اقوامی انٹریکشن کے قابل بنا دیتا ہے۔
سفرنہ کرنے کی صورت میں آدمی محدود طورپر صرف اپنے لوگوں میں رہتا ہے۔ لیکن جب وہ سفر کرتا ہے تو اس کا ربط عام انسانوں سے قائم ہوجاتا ہے۔ اب وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ عالمی تجربات سے فائدہ اٹھائے، وہ زیادہ بہتر طورپر اپنی زندگی کی تعمیر کرسکے۔