جنت کی تلاش
ہر آدمی کے ذہن میں ایک خوب صورت دنیا بسی ہوئی ہے، ایک ایسی دنیا جو کامل ہو، جو معیاری ہو، جہاں اس کی تمام آرزوئیں پوری ہوسکیں۔ یہی ذہنی تصور ہر آدمی کے لیے اس کے عمل کا سب سے بڑا محرک ہے۔ ہر عورت اور مرد اس کو حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی پوری زندگی اور اپنی ساری طاقت اِس کے راستے میں لگا دیتے ہیں، لیکن آخرمیں یہ ہوتا ہے کہ ہر آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنی مطلوب دنیا کو نہ پاسکا۔ ہر آدمی اپنی زندگی اعلیٰ حوصلے کے ساتھ شروع کرتا ہے، لیکن ہر آدمی اِس احساس کے ساتھ مرجاتا ہے کہ وہ ساری کوشش کے باوجوداپنی مطلوب دنیا کو پانے میں ناکام رہا۔
یہی پوری انسانیت کی تاریخ ہے۔ اِس میں کسی عورت یا کسی مرد کا کوئی استثنا نہیں۔ یہ انسانیت کا سب سے بڑا سوال ہے۔ کیوں ایسا ہے کہ لوگ امیدوں اور حوصلوں کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں، لیکن وہ محرومی کے احساسات کو لے کرمرجاتے ہیں۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں جو خوب صورت دنیا بسی ہوئی ہے، وہ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، جنت کی دنیا ہے۔ اور جنت کسی کو موت کے بعد آنے والے مرحلۂ حیات میں ملے گی، نہ کہ موت سے پہلے والے مرحلۂ حیات میں۔ انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی مطلوب جنت کو موجودہ دنیا ہی میں پالے، مگر جنت کا حصول موجودہ دنیا میں ممکن نہیں۔
اِس معاملے میں انسان اور جنت کی مثال مچھلی اورپانی جیسی ہے۔ مچھلی کو سکون صرف پانی کے اندر ملتا ہے، پانی کے باہر نہیں۔ اِسی طرح انسان کو صرف جنت میں سکون ملے گا، جنت کے باہر اس کو سکون، یا فل فل مینٹ (fulfilment) ملنے والا نہیں۔
جنت کی تلاش دراصل مستقبل کی تلاش کا دوسرا نام ہے، اور مستقبل صرف مستقبل میں ملتا ہے، وہ کسی کو حال میں ملنے والا نہیں۔انسان کو اگر اِس حقیقت کی دریافت ہوجائے تو وہ موجودہ دنیا کو مطلوب جنت کی تیاری کی جگہ سمجھے گا، نہ کہ خود مطلوب جنت کو پانے کی جگہ۔