ایک سنگین مغالطہ
لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے دنیوی معاملات میں خوب عقل لگاتے ہیں، زیادہ سے زیادہ سوچتے ہیں، ہر پہلو سے سمجھ کر منصوبہ بندی (planning) کرتے ہیں، لیکن دین کے معاملے میں ان کا طریقہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ یہاں وہ سمجھتے ہیں کہ کسی حضرت کی دعا لے لو، کسی درگاہ میں چلے جاؤ، کسی بزرگ کی زیارت کرلو، تسبیح کے دانے پر کچھ الفاظ پڑھ لو، کچھ رسمی اعمال (rituals) کو دہرالو اور پھر تمام دینی معاملات خود بخود درست ہوجائیں گے۔ مگر یہ دو طرفہ طریقہ سر تا سر بے بنیاد ہے۔ اِس طریقے کا کوئی فائدہ کسی کو ملنے والا نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی جس طرح دنیا کے معاملات میں اپنی عقل لگاتا ہے، اُسی طرح اس کو دین کے معاملے میں بھی اپنی عقل لگانا ہوگا۔ دین کے معاملے میں بھی اس کو اپنے شعور کی پوری طاقت استعمال کرنا ہوگا۔ اِس کے بغیر نہ کوئی شخص حقیقی معنوں میں دین دار ہوسکتا ہے اور نہ وہ جنت کا مستحق بن سکتا ہے۔
دین دار بننے کا عمل پورے معنوں میں، ایک شعوری عمل ہے۔ ہر عورت اور مرد کے لیے لازم ہے کہ وہ شعوری سطح پر دین کو دریافت کرے۔ وہ دین داری کو شعوری دین داری بنائے، نہ کہ رسمی دین داری۔ وہ دین کو پورے معنوں میں، اپنے دل و دماغ کا حصہ بنائے۔ وہ اپنی دینی زندگی کو بھی اُسی طرح ایک باشعور زندگی بنائے جس طرح وہ اپنی دنیا کی زندگی کو ایک باشعور زندگی بنائے ہوئے ہے۔ اِس معاملے میں کسی بھی شخص کا کوئی استثنا نہیں۔
خدا نے انسان کو جو سب سے بڑی چیز دی ہے، وہ اس کا عقل وشعور ہے۔ جو لوگ عقل وشعور کی برتر سطح پر دین کو نہ پائیں اور دین کو اختیار نہ کریں، وہ خدا کے یہاں بے دین قرار پائیں گے، خواہ رسمی سطح پر بظاہر وہ دین دار کیوں نہ بنے ہوئے ہوں۔ دین داری ایک شعوری عمل ہے، نہ کہ صرف ایک رسمی عمل۔