آزادی خیر ِاعلیٰ
جان اسٹوارٹ مل (John Stuart Mill) انیسویں صدی عیسوی کا مشہور انگلش فلاسفر ہے۔ وہ 1806 میں پیدا ہوا، اور 1873 میں اس کی وفات ہوئی۔ فرد (individual)کے مقابلے میں اجتماع (society) کی آزادی (liberty) کا تصور سب سے پہلے اُس نے باقاعدہ صورت میں پیش کیا۔ اِس سلسلے میں اس کی حسب ذیل کتاب بہت مشہور ہوئی:
Essay on Liberty (1859)
اِس کے بعد اِ س موضوع پر بہت زیادہ لکھا گیا اوراس کی حمایت میں بڑی بڑی تحریکیں اٹھیں، مغربی دنیا میں بھی اور مشرقی دنیا میں بھی، یہاں تک کہ عمومی طورپر یہ مان لیا گیا کہ فرد کی آزادی اُس کے لیے خیر اعلیٰ (summum bonum) کی حیثیت رکھتی ہے۔
فردکی آزادی بلا شبہہ ایک اچھی چیز ہے، لیکن آزادی کو خیر اعلیٰ سمجھ لینا، سخت تباہ کن ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان بیک وقت دو چیزوں کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک طرف، خالق کا قائم کردہ فطرت کا نظام، اور دوسری طرف، انسانوں پر مشتمل سماجی نظام۔ فرد پر لازم ہے کہ وہ اِن دونوں سے موافقت کرکے زندگی گزارے۔ اِس کے سوا کوئی اور طرزِ زندگی یہاں ممکن نہیں۔ فطرت کے نظام سے عدم موافت کا نتیجہ اپنی ہلاکت ہے، اور اجتماعی نظام سے عدم موافقت کا نتیجہ سماجی اِباحیت (social permissiveness)۔ اور فرد کی آزادی کے یہ دونوں نتیجے تباہ کن حدتک ناقابلِ عمل ہیں۔
فرد کے لیے مطلق آزادی کا تصور بلاشبہہ تباہ کن ہے۔ البتہ محدود آزادی کا تصور ایک صحت بخش تصور ہے، وہ انسان کی ترقی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔اِس دنیا میں انسان کو آزادی حاصل ہے۔ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے، لیکن سماجی زندگی میں بے قید آزادی قابلِ عمل نہیں۔ سماجی زندگی میں جو چیز ممکن ہے، وہ محدود آزادی ہے، نہ کہ بے قید آزادی۔ بے قید آزادی کا نتیجہ انارکی (anarchy) ہے، اور محدود آزادی کا نتیجہ صحت مند ترقی۔