سیاسی اقتدار کی حیثیت

جنگِ بدر (17 رمضان، 2 ہجری) میں مسلمانوں کو اپنے مخالفین کے اوپر فتح حاصل ہوئی۔ اور جنگ اُحد (6 شوال، 3 ہجری) میں اُنھیں اپنے مخالفین کے مقابلے میں شکست ہوگئی۔ اِس پس منظر میں قرآن کی سورہ نمبر 3 میں یہ آیت اتری: تلک الأیام نُداولہا بین النّاس (آل عمران: 140) یعنی ہم اِن ایّام کو لوگوں کے دمیان بدلتے رہتے ہیں۔

اِس آیت کا ایک تعلق وقتی حالات کے اعتبارسے ہے، اور دوسرے اعتبار سے اِس میں فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے، ایک ایسا قانون جس کا تعلق تمام اجتماعی معاملات سے ہے۔ مثلاً فتح وشکست، سیاسی اقتدار کا ملنا اور نہ ملنا، امیری اور غریبی، وغیرہ۔

اصل یہ ہے کہ یہ دنیا دار الامتحان (testing ground) ہے۔ اِس دنیا میں کسی کو جو چیز ملتی ہے، وہ پرچۂ امتحان (test paper) کے طور پر ملتی ہے، نہ کہ رحمت اور انعام کے طورپر۔ یہی معاملہ سیاسی اقتدار کا ہے۔ سیاسی اقتدار بھی ایک پرچۂ امتحان ہے۔ کسی گروہ کو سیاسی اقتدار کا ملنا ہمیشہ امتحان کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ انعامِ خداوندی کے طورپر۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اقتدار پر کسی گروہ کی اجارہ داری (monopoly) نہیں ہوتی۔ خدا کو ہر ایک کی آزمائش کرنا ہے، اِس لیے خدا، سیاسی اقتدار کبھی ایک گروہ کو دیتا ہے اورکبھی دوسرے گروہ کو۔ایسی حالت میں اگر ایسا ہو کہ کسی گروہ کو سیاسی اقتدار ملا اور پھر وہ اُس سے چھن گیا، تو اس کو سمجھنا چاہیے کہ خدا نے پہلے سیاسی اقتدار کے ذریعے میرا امتحان لیا تھا اوراب اُس نے کسی دوسرے گروہ کے امتحان کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی اقتدار کے چھننے پر شکایت یا احتجاج کرنا صرف اِس بات کا ثبوت دینا ہے کہ میں امتحان میں ناکام ہوگیا۔

موجودہ دنیا میں صحیح زندگی گزارنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ہر چیز کو امتحان کا پرچہ سمجھے۔ وہ کسی حالت کو نہ تو انعام سمجھے اور نہ سزا۔ زندگی کا یہی تصور خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق ہے۔ اِسی میں دنیا کی کامیابی بھی ہے اور آخرت کی کامیابی بھی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom