حد کے اندر رہئے
ایک شخص آپ پر تنقید کرتا ہے، اور کوئی قابل شکایت بات کردیتا ہے۔ اب اعلیٰ اخلاقی درجہ یہ ہے کہ آپ اس کی طرف سے پیش آنے والی ناخوش گواری کو برداشت کرلیں۔ آپ اس کو نظر انداز کرکے اس کے ساتھ اپنے حسن سلوک کو بدستور باقی رکھیں۔دوسری صورت یہ ہے کہ جب ناخوش گوار بات پیش آئی تو آپ برداشت نہ کرسکے۔ جس طرح اس نے آپ کو سخت الفاظ کہے تھے، آپ نے بھی اس کو سخت الفاظ کہہ دیے۔ یہ برابر کا معاملہ ہے اور یہ بھی اسلام میں جائز ہے (الشوریٰ:45)۔
تیسری صورت یہ ہے کہ جس آدمی سے آپ کو تکلیف پہنچی ہے، اس کے خلاف آپ کے دل میں کینہ پیدا ہوگیا۔ آپ اس کو دوسروں کے سامنے بے عزت کرنے لگے۔ آپ اس کی کردار کشی اور اس پر الزام تراشی میں لگ گئے۔ آپ کی نفسیات یہ ہوگئی کہ آپ اس کو بے عزت کرکے خوش ہوں،اس کو لوگوں کے سامنے بے آبرو کرکے آپ کو لذت ملے۔ یہ تیسری صورت اسلام میں ناجائز ہے۔ ایسا کرکے آپ اپنے کو اللہ کے سامنے گنہ گار بنارہے ہیں۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ آپ صرف بے عزت کرنے پر نہ رکیں۔ بلکہ قابلِ شکایت آدمی کے خلاف تخریب کاری کے منصوبے بنائیں۔ اس کو قتل کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ اس کی جائداد پر قبضہ کریں۔ اس کے اثاثہ کو نقصان پہنچائیں۔ اس کے مستقبل کوتباہ کرنے پر تل جائیں۔یہ چوتھی صورت گنہ گاری پر سرکشی کا اضافہ ہے۔ جوشخص اس حد تک چلا جائے، وہ اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ وہ اللہ سے آخری حد تک بے خوف ہوچکا ہے۔ اللہ کی پکڑ کا اس کو اتنا اندیشہ بھی نہیں جتنا کسی کو چیونٹی کے کاٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ایسے آدمی کے لیے اللہ کی رحمتوں میں کوئی حصہ نہیں۔
ہر آدمی غلطی کرتا ہے۔ کوئی انسان غلطی سے پاک نہیں۔ مگر غلطی کی ایک حد ہے۔ جو شخص اپنی غلط کاری میں حد کو پار کرجائے وہ خدا کی غیرت کو چیلنج کررہا ہے۔ اور جو شخص خدا کی غیرت کو چیلنج کرے اس کا انجام نہ دنیا میں بہتر ہوسکتا ہے اور نہ آخرت میں۔