دعوت، تذکیر
اسلامی تحریک کے دو بڑے میدان ہیں— ایک، مسلمانوں میں، اور دوسرا، غیر مسلموں میں۔ یہ دونوں ہی کام اہمیت کے حامل ہیں، لیکن دونوں کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اِسی لیے قرآن میں دونوں قسم کے کاموں کے لیے دو الگ الگ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اسلامی تحریک کے لیے قرآن میں تذکیر کا لفظ آیا ہے۔ مثلاً: وذکّر فإن الذّکری تنفع المؤمنین (الذّاریات: 55)۔ اِسی طرح، غیر مسلموں میں کام کی نسبت سے قرآن کی ایک آیت یہ ہے: کبُر علی المشرکین ما تدعوہم إلیہ (الشوریٰ: 13)۔پہلی آیت میں، مسلمانوں کے درمیان اسلامی عمل کو تذکیر کہاگیا ہے اور دوسری آیت میں غیر مسلموں کے درمیان اسلامی عمل کے لیے دعوت کا لفظ استعمال کیاگیا ہے۔
تذکیر کے لفظی معنیٰ ہیں— یاد دہانی (to remind)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان کا اقرار کر کے اسلام کے حلقے میں داخل ہوچکے ہیں، اُن کو اپنے اقرار پر پورا اترنے کی یاد دہانی کرنا، ان کے اندر جب بھی کوئی عملی کمی پیدا ہو، تو ان کو نصیحت اور یاددہانی کے ذریعے اپنے اقرار پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کرنا۔ اِس قسم کا کام صرف ان لوگوں کے اوپر کیا جاتا ہے جو اپنے مومن اور مسلم ہونے کا اعلان کرچکے ہوں۔ یہی تذکیر کا مطلب ہے اور اِسی بنا پر اہلِ ایمان کے درمیان اسلامی کام کو تذکیر کہاگیا ہے۔
غیر مسلموں کے درمیان اسلامی کام کے لیے قرآن میں دعوت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قرآن کی جن جن آیتوں میں اپنی معاصر قوموں پر پیغمبرانہ عمل کا ذکر ہے، وہاں دعوت کا لفظ استعمال ہواہے، یعنی پیغمبر کا اپنے غیر مسلم مدعو کو خطاب کرنا۔ یہ دعوت کے لفظی معنی کے عین مطابق ہے۔ عربی زبان میں، دعوت کا مطلب ہے— کسی چیز کی طرف بلانا، یا پکارنا (to call, to invite)۔
عملِ دعوت اور عملِ تذکیر کے اِس فرق کو ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ آدمی کنفیوژن میں رہے گا، وہ دونوں میں سے کسی کام کا حق ادا نہ کرسکے گا۔