سنتِ یوسفی

جمہوری دور میں جو نئی چیزیں دنیا میں آئیں، اُن میں سے ایک وہ ہے جس کو اپوزیشن کی پالٹکس (politics of opposition) کہا جاتا ہے، یعنی حکومت کو بدلنے کے لیے اس کے خلاف سیاسی تحریک چلانا۔ موجودہ زمانے میں ’’اسلام پسندوں ‘‘ نے اسلام کے نام پر اِسی سیاسی طریقِ کار کو اپنایا۔ اِس میں وہ انتہاپسندی، بلکہ تشدد کی حد تک پہنچ گئے۔ اِس طرح، اسلام پسند جماعتوں اور حکم رانوں کے درمیان ٹکراؤ ہوا۔ اِس ٹکراؤ کے بعد حکم رانوں نے انتہا پسند لیڈروں کو گرفتار کرکے اُنھیں جیل میں ڈال دیا۔ اِس طرح کے واقعات کو یہ اسلام پسند لوگ ’’سنتِ یوسفی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔

یہ بلاشبہہ، سنتِ یوسفی کے لفظ کا غلط استعمال ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک غیر سیاسی نوعیت کی غلط فہمی کے تحت، وقت کے حکم راں نے جیل میں ڈالا تھا، کسی قسم کی سیاسی اپوزیشن تحریک کے نتیجے میں ایسا نہیں ہوا تھا، جب کہ یہ ایک واقعہ ہے کہ موجودہ زمانے کے نام نہاد اسلام پسند، سیاسی اپوزیشن کے نتیجے میں جیل میں ڈالے گئے۔

جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے، حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے کا مصری حکم راں ایک مشرک تھا، مگر حضرت یوسف نے کبھی اِس مشرک حکم راں کے خلاف کوئی سیاسی تحریک نہیں چلائی۔ اِس کے برعکس، حضرت یوسف نے یہ کیا کہ مشرک بادشاہ کے سیاسی اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے اُس کے تحت، انھوں نے ایک سرکاری عہدہ قبول کرلیا۔ جدید اصطلاح کے اعتبار سے اِس عہدے کو وزارتِ غذا کا عہدہ کہاجاسکتا ہے۔

ایسی حالت میں حقیقی سنتِ یوسفی یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما اپنی سیاسی اپوزیشن کی تحریک کو غیر پیغمبرانہ تحریک قرار دیں اور حضرت یوسف کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے وہ وقت کے حکم راں کے ساتھ تعاون کا اندازاختیار کریں، وہ سیاسی ٹکراؤ سے کامل پرہیز کرتے ہوئے اپنے دینی عمل کا نقشہ بنائیں— سنتِ یوسفی، حکم راں کے ساتھ تعاون کرنے کا نام ہے، نہ کہ حکم راں کے ساتھ سیاسی ٹکراؤ کرنے کا نام۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom