مغز اور چھلکا
ایک صاحب نے کہا کہ میں آپ کی تحریروں کا دل دادہ (fan) ہوں۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے میری کون سی کتابیں پڑھی ہیں۔ انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی کتاب ’’رازِ حیات‘‘ کو تو میں پی گیا ہوں۔ اُس کے صفحے کے صفحے، مجھے یاد ہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ ’’تذکیر القرآن‘‘ آپ نے پڑھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تذکیر القرآن میرے پاس ہے اور میں کبھی کبھی اس کو پڑھتا ہوں۔
الرسالہ کے قارئین میں بہت سے لوگ ہیں جو اِس طرح کی بات کہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگوں نے ہمارے مشن کا صرف چھلکا پایا ہے، وہ ہمارے مشن کے مغز سے واقف نہ ہوسکے۔اِسی طرح ایک صاحب نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا کہ میں آپ کو مسلمانوں کا ڈیل کارنیگی (وفات: 1955) سمجھتا ہوں۔
راقم الحروف کی کتابوں میں— رازِ حیات، تعمیر ِحیات، رہ نمائے حیات، اور کتابِ زندگی جیسی کتابیں مثبت تعمیر کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ بجائے خود وہ اہم کتابیں ہیں، لیکن ہمارے مشن کا اصل پہلو ربانی ذہن کی تشکیل سے تعلق رکھتا ہے، یعنی انسان کو اِس قابل بنانا کہ وہ شعوری طورپر اپنے رب سے وابستہ ہوجائے۔ رب العالمین سے روحانی وابستگی، دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیوں کا خزانہ ہے۔
ہمارے مشن کا اصل مقصد یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کو عام کیا جائے۔ اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب میں پیش کیا جائے۔ لوگوں کو صحیح دینی تصور سے روشناس کیا جائے۔ اسلام کو غلط تعبیرات سے پاک کیا جائے۔ لوگوں کے اندر ربانی شعور بیدارکیا جائے، لوگوں کے اندر مثبت طرزِ فکر پیدا کیاجائے۔ لوگوں کے اندر خدا کی اعلیٰ معرفت اورآخرت رخی زندگی کا شعور لایا جائے۔ لوگوں کے اندر فکری ارتقا کا عمل جاری کیا جائے۔ لوگوں کے اندر شخصیت پرستی کے بجائے، خدا پرستانہ ذہن کی پرورش کی جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ دین میں اصل ماڈل پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کا ہے، وغیرہ۔ جن لوگوں نے اِس طرح ہمارے مشن کو پایا، انھیں نے مشن کو پایا، اور جن لوگوں نے اِس طرح اُس کو نہیں پایا، ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ— انھوں نے پڑھا، مگر انھوں نے نہیں پڑھا۔