گمان سے بچنا

قرآن کی سورہ نمبر 49 میں ایک اخلاقی حکم اِن الفاظ میں آیا ہے: یٰأیّہا الذین آمنوا اجتنبوا کثیراً من الظّن، إنّ بعض الظنّ إثم (الحجرات: 12) یعنی اے ایمان والو، بہت سے گمانوں سے بچو، کیوں کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔

ظن کے لفظی معنیٰ گمان (supposition) کے ہیں۔ اِس آیت میں یہ نہیں کہاگیا ہے کہ تمام گمان گناہ ہوتے ہیں، بلکہ یہ فرمایا کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ گمان کی دو قسم ہے۔ ایک، وہ جو گناہ ہے، دوسرا، وہ جو گناہ نہیں ہے۔

گمان یا قیاس کی ایک قسم وہ ہے جس کو مثبت گمان کہہ سکتے ہیں، یعنی کسی کے بارے میں گمان یا قیاس کی بنا پر ایسی بات کہناجس کی نوعیت عیب کی نہ ہو، جس سے آدمی کے بارے میں کوئی بُری رائے قائم نہ ہوتی ہو، جو محض ایک سادہ بیان کی حیثیت رکھتا ہو، جس کو زیر تبصرہ شخص سنے تو وہ اُس کو بُرا نہ مانے۔ ایسا گمان یا قیاس شریعت میں جائز ہے۔

دوسرا گمان وہ ہے جو منفی گمان کی حیثیت رکھتا ہے، یعنی کسی کے بارے میں ایسا ریمارک دینا، جس سے اُس کے اوپر کوئی الزام واقع ہوتا ہو، جس میں اس کی نیت پرحملہ کیاگیا ہو، جو کسی شخص کی کردار کشی (character assasination) کے ہم معنی ہو۔ ایسا گمان منفی گمان ہے اور وہ اسلامی شریعت میں حرام ہے۔

جس سماج میں لوگ ایک دوسرے کے بارے میں منفی گمان کی بنیاد پر بیان دینے لگیں، وہ سماج ایک فاسد سماج بن جائے گا۔ ایسے سماج میں مثبت قدریں (positvie values) فروغ نہیں پائیں گی۔ ایسے سماج میں برائیوں کو فروغ ملے گا، نہ کہ اچھائیوں کو۔ ایسے سماج میں ایک دوسرے پر اعتماد (trust) کرنے کا ماحول ختم ہوجائے گا، حالاں کہ صحت مند سماج کی تعمیرکے لیے اعتماد کا ماحول لازمی طور پر ضروری ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom