انسان کی تلاش
ایک فارسی شاعر نے دو شعر میں اپنے ایک دردناک احساس کو بیان کیا ہے۔ اُس نے کہا کہ— کل میں نے دیکھا کہ شیخ ایک چراغ لیے ہوئے شہر کا گشت کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میں آدمیوں سے دکھی ہوں اور مجھے ایک انسان کی تلاش ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے تلاش کیا ہے، مگر وہ نہیں ملتا۔ شیخ نے جواب دیا کہ میں اُسی کو چاہتا ہوں جو نہیں ملتا:
دی شیخ باچراغ ہمیں گشت گردِ شہر کز مردما ملومم وانسانم آرزواست
گفتم کہ یافت می نہ شود، جُستہ ایم ما گفت آں کہ یافت می نہ شود آنم آرزواست
مجھے نہیں معلوم کہ شاعر کو اور اُس کے زمانے کے شیخ کو کس قسم کے انسان کی تلاش تھی، تاہم میں یہ کہہ سکتاہوں کہ مجھے بھی ساری زندگی کچھ انسانوں کی تلاش رہی ہے، مگر آخر میں معلوم ہوا کہ ایسے انسان اِس دنیا میں سب سے زیادہ کم یاب چیز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ وہ انسان ہیں جن سے اعلیٰ سطح کا تبادلۂ خیال (exchange) کیا جاسکے۔ میں ذاتی طورپر اپنے لیے ایکسچینج پارٹنر(exchange partner) کو سب سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہوں، مگر عجیب بات ہے کہ لوگ شاید ایکسچینج پارٹنر کے تصور سے بھی آشنا نہیں۔
ایکسچینج پارٹنر کون ہے۔ حقیقی معنوں میں ایکسچینج پارٹنر صرف وہ شخص بن سکتا ہے جو اعلیٰ علمی ذوق رکھتا ہو، جو سچائی پر کھڑا ہواہو، جو متعصبانہ طرزِ فکر سے پاک ہو، جو تنقید اور تعریف سے اوپر اٹھا ہوا ہو، جو اعتراف کی لذت کو جانتا ہو، جو عذر کی نفسیات سے پوری طرح خالی ہو، جو نفسیاتی پیچیدگی سے آزاد ہو، جو حقیقت شناسی کی صلاحیت رکھتاہو، جو حقیقی معنوں میں متواضع(modest) ہو، جو منفی سوچ سے مکمل طورپر خالی ہو، جو عجز کی نفسیات میں جیتاہو، نہ کہ انا کی نفسیات میں، جس کے لیے معرفتِ اعلیٰ کے سوا، ہر دوسری چیز ثانوی بن جائے— ایک صاحبِ ذوق کے لیے اپنا ایک ایکسچینج پارٹنر پالینا، سب سے بڑی یافت ہے، تمام خزانوں سے بھی زیادہ بڑی یافت۔