فخر سے غرورتک

عام طورپر لوگوں کے اندر فخر (pride)کا مزاج ہوتا ہے— صحت پر فخر، علم پر فخر، خاندان پر فخر، تاریخ پر فخر، وغیرہ۔ عام تصور یہ ہے کہ فخر کا احساس بہت ضروری ہے۔ اِس سے آدمی کے اندر عزتِ نفس (self-respect)، خو د اعتمادی اور حوصلہ جیسی مثبت صفات پیدا ہوتی ہیں۔

لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ آدمی کے پاس اگر کوئی چیز فخر کے لیے نہ ہو تو وہ احساسِ کم تری کا شکار ہوجائے گا۔ اس کے اندر لوگوں سے دب کر رہنے کا مزاج پیدا ہوجائے گا۔ وہ اونچی فکر کے ساتھ لوگوں کے درمیان نہ رہ سکے گا۔

مگر فخر کے جواز کی یہ توجیہات درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فخر ایک اخلاقی برائی ہے۔ فخر کوئی علاحدہ صفت نہیں، فخر کے ساتھ دوسری کئی چیزیں لازمی طورپر جڑی ہوئی ہیں۔ مثلاً فخر کے ساتھ خود پرستی آتی ہے، فخر کے ساتھ احساسِ برتری آتا ہے، فخر دھیرے دھیرے غرور (arrogance)کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ فخر در اصل اُسی برائی کا ایک خوب صورت نام ہے جس کو ابلیس نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا: أنا خیرٌ منہ (الأعراف: 12)یعنی میں اُس سے بہتر ہوں:

I am better than he (7: 12)

فخر کسی مجرد صفت کا نام نہیں، فخر ایک تقابلی (comparative) صفت کا نام ہے۔ فخر ہمیشہ کسی کے مقابلے میں پیدا ہوتا ہے۔فخر کرنے والے کے اندر، شعوری یا غیر شعوری طورپر، یہ احساس رہتا ہے کہ— میں دوسروں سے بہتر ہوں۔

یہ احساس عین وہی چیز ہے جس کا ذکر قرآن میں ابلیس کی نسبت سے کیا گیا ہے۔ فخر کرنے والاآدمی شیطان کے زیر اثر آجاتا ہے۔ ایسا انسان دھیرے دھیرے غرور میں مبتلا ہوجاتا ہے اور بلا شبہہ اس دنیا میں غرور سے زیادہ بُری کوئی چیز نہیں۔ فخر اور غرور میں صرف لفظ کا فرق ہے، حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom