ِختم فتنہ کا دور

قرآن کی سورہ نمبر 8 میں رسول اور اصحاب رسول کو یہ حکم دیا گیا کہ: قاتلوہم حتیّٰ لا تکون فتنۃ ویکون الدین کُلُّہ للّٰہ (الأنفال: 39) یعنی ان سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ اس آیت میں کوئی سیاسی حکم نہیں بتایا گیا ہے۔ یہ آیت تمام تر مذہب کے معاملے میں اسلام کے اصول کو بتاتی ہے۔

آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد مذہبی جبر(religious persecution) ہے۔ قدیم زمانے میں ہر جگہ بادشاہی نظام قائم تھا۔ بادشاہوں نے یہ مذہبی اصول اختیار کررکھا تھا کہ اسٹیٹ کا جو مذہب ہو، وہی ملک کے تمام باشندوں کا مذہب ہو۔ اُس زمانے میں اسٹیٹ کے مذہب کے سوا کسی اور مذہب کو اختیار کرنا، ریاست سے بغاوت کے ہم معنیٰ سمجھا جاتا تھا اور ایسے لوگوں کے ساتھ وہ معاملہ کیا جاتا تھا جس کو تاریخ میں مذہبی ایذا رسانی (religious persecution) کہاجاتا ہے۔ اِسی بنا پر یہ عمومی مثل بن گئی تھی کہ: الناسُ علیٰ دین مُلوکہم۔

مذہب کو اسٹیٹ کا معاملہ قرار دینے کا یہ طریقہ خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف تھا۔ خداکے تخلیقی پلان (creation plan) کے مطابق، موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ اس لیے ہر انسان کو آزادی ہے کہ وہ جس دین کو چاہے اختیار کرے۔ یہی بات قرآن کی اِس آیت میں کہی گئی ہے: لا إکراہَ فی الدین (البقرۃ: 256)۔مذہبی جبر یا مذہب کو ریاست کے تابع قرار دینا، خدا کے تخلیقی پلان کی نفی کے ہم معنی تھا۔اس لیے حکم دیاگیا کہ اِس سیاسی روایت کو ختم کردو، تاکہ انسان آزادی کے ساتھ جو مذہب چاہے، اختیار کرے۔ مذہب کا معاملہ امتحان کا معاملہ ہے، نہ کہ قانونی اور سیاسی معاملہ۔ ختمِ فتنہ کا یہ کام ایک وقتی کام تھا جو رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں کامل طورپر انجام پاگیا۔جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، یہ واقعہ ساتویں صدی عیسوی میں پیش آیا۔

واقعات بتاتے ہیں کہ تاریخ میں دوبار ایسا ہوا کہ مذہب کو اسٹیٹ کے ماتحت شعبہ قرار دے دیا گیا۔ پہلی بار قدیم بادشاہت کے زمانے میں، اور دوسری بار جدید کمیونسٹ ایمپائر کے زمانے میں۔ یہ دونوں نظام، خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف تھے۔ اس لیے خدا نے ایسے حالات پیدا کیے کہ ان دونوں نظاموں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔ قدیم بادشاہت کے تحت قائم ہونے والے نظام کو دورِ اول کے اہلِ اسلام کے ذریعہ ختم کیا گیا تھا، اور جدید کمیونسٹ ایمپائر کے نظام کو ختم کرنے کے لیے امریکا کو ذریعہ بنایا گیا۔ یہ ایک خدائی انتقام تھا کہ تشدد کا استعمال کیے بغیر کمیونسٹ ایمپائر کا خاتمہ ہوگیا۔

اب ساری دنیا میں مذہبی جبر کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب ہر ملک میں کامل معنوں میں، مذہبی آزادی (religious freedom) حاصل ہے۔ اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی کے چارٹر کے تحت، تمام ملکوں نے اجتماعی طورپر مذہبی آزادی کا حق ہر ایک کے لیے تسلیم کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہر ملک کے دستور میں، بشمول ہندستان، مذہبی آزادی کا حق ہر عورت اور مرد کو مکمل طورپر عطا کیاگیا ہے۔

اس عالمی تبدیلی کے بعد اب جنگ کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اب کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ اس ملی ہوئی آزادی کو بھر پور طورپر استعمال کیا جائے اور خدا کے دین کو ساری دنیا میں ہر چھوٹے اور بڑے گھر کے اندر پہنچا دیا جائے، جیسا کہ حدیث میں پیشین گوئی کی گئی ہے (لایبقیٰ علی ظہر الأرض بیتُ مدَرٍ ولا وبَرٍ إلا أدخلہ اللّٰہ کلمۃَ الإسلام

قرآن کے مطابق، خدا نے انسان کو ابتلا کے لیے پیدا کیا ہے(الملک: 2)، یعنی دنیا میں انسان کو بسا کر اس کو کامل آزادی دی گئی ہے، تاکہ وہ جس طرح چاہے رہے اور پھر اپنے عمل کے مطابق، آخرت میں سزا اور انعام پائے۔ قرآن، تخلیق کے اِسی خدائی نقشے کی تفصیل ہے۔

موجودہ دنیا میں فتنہ کی حالت (مذہبی جبر کی حالت) خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف ہے۔ وہ خدا کے فطری نظام میں مداخلت ہے۔ خدا اپنی دنیا میں اِس قسم کی مداخلت کو کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ ضرور اس کو ختم کردے گا، کبھی ایک انسانی گروہ کے ذریعے اور کبھی دوسرے انسانی گروہ کے ذریعے۔ یہ معاملہ خدائی آپریشن کا معاملہ ہے۔ اِس قسم کا آپریشن فرشتوں کے ذریعے انجام نہیں دیا جاتا، بلکہ اسباب و علل کا پردہ باقی رکھتے ہوئے، اس کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ مذکورہ دونوں واقعات اِسی کی تاریخی مثالیں ہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom