کتابِ تلاوت، یا کتاب ِاطاعت

مسٹر اے اور مسٹر بی کے درمیان ایک جائداد (property) کو لے کر نزاع ہوئی۔ دونوں کا دعویٰ تھا کہ جائداد میری ہے۔ دونوں مسلمان تھے۔ مسٹر اے نے مسٹر بی سے کہا کہ اگر آپ قرآن کو ہاتھ میں لے کر کہہ دیں کہ یہ جائداد میری ہے، تو میں اپنا دعویٰ واپس لے لوں گا اور جائداد پرآپ کا حق تسلیم کرلوں گا۔ مسٹر بی نے کہا— اِس معاملے کا قرآن سے کیا تعلق۔

مسٹر بی ایک مسلمان شخص تھے، پھر انھوں نے ایسا کیوں کہا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان، خدا کی کتاب کو وہی درجہ دے چکے ہیں جس کو قرآن میں کتابِ مہجور (الفرقان: 30) کہاگیا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے قرآن برائے تلاوت کتاب بن گیا ہے، نہ کہ برائے اطاعت کتاب۔ یہ ذہن موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں عام ہوچکا ہے۔ مذکورہ واقعہ اِسی ذہن کی ایک مثال ہے۔

بہت سے لوگ جو اسلام کے نام پر ادارے، یا تحریکیں چلا رہے ہیں، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنا کام شروع کرنے سے پہلے، قرآن کو بار بار اِس نظر سے پڑھا تھا کہ قرآن کے مطابق، میرے لیے کرنے کا کام کیا ہے۔ مگر غالباً کسی نے بھی یہ جواب نہیں دیا کہ ہاں، میں نے قرآن کو بار بار اِس نظر سے پڑھا اور پھر قرآن سے مجھ کو جو روشنی ملی، اس کے مطابق، میں نے اپنا یہ کام شروع کیا۔

ایسے لوگ بہت ملیں گے جو قرآن کی تفسیر پڑھیں گے، یا عربی زبان سیکھنے کی کوشش کریں گے، تاکہ وہ قرآن براہِ راست سمجھ سکیں۔ لیکن ایسا کوئی شخص مشکل سے ملے گا جو قرآن کو اپنے قول و عمل کے لیے ایک رہ نما کتاب (guide book)بنائے ہوئے ہو۔ یہی موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سب سے بڑی کوتاہی ہے۔ مسلمان جب تک قرآن کو اپنے لیے رہ نما کتاب نہیں بنائیں گے، اُن کا کوئی معاملہ درست ہونے والا نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom