جموں وکشمیر کا مسئلہ
امرناتھ شرائن بورڈ کی زمین کو لے کر جموں وکشمیر میں جولائی 2008 میں ایجی ٹیشن (agitation) شروع ہوا۔ ایک مہینے سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود، اب تک وہ شدید طورپر جاری ہے۔ پہلے مرحلے میں، مسلم انتہا پسند (Muslim extremists) گروپ نے یہ ایجی ٹیشن چلایا تھا۔ اب دوسرے مرحلے میں، ہندوانتہا پسند (Hindu extremists)گروپ یہ ایجی ٹیشن چلا رہا ہے۔ اِس کے نتیجے میں ریاست کے باشندے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ریل اور روڈ کے تمام راستے بند ہیں۔ ضروری اشیا کی آمدو رفت نہیں ہورہی ہے۔ تجارتی سرگرمیاں منقطع ہیں۔ اِس کے نتیجے میں لوگوں کو ناقابلِ برداشت قسم کے انسانی مسائل کا سامنا ہے۔
ہمارے ملک میں جمہوریت ہے، آزادی ہے، سیکولرازم ہے، یہاں ہر شخص کو حق ہے کہ وہ اپنے جائز حقوق کے لیے کوشش کرے۔ لیکن اِس کوشش کی کچھ شرطیں ہیں۔ اِن شرطوں کو اگر ملحوظ نہ رکھا جائے، تو ملک میں فساد پھیلے گا اور جمہوریت ایک قسم کی انارکی (anarchy) بن جائے گی۔ وہ شرط یہ ہے کہ ہر شخص اور ہر گروہ یہ تسلیم کرے کہ ہر حق سے اوپر ملک کا حق ہے۔ملک کو نقصان پہنچانے کی قیمت پر کسی کو بھی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا جائز نہیں۔
اپنے حقوق (rights) کے لیے کوشش کی جائز صورت صرف یہ ہے کہ اُس کو امن اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا جائے۔ جو لوگ امن اور قانون کو توڑ کر اپنی تحریک چلائیں، اُن کو ملک کا خیر خواہ (well-wisher) نہیں کہا جاسکتا۔
جموں کے علاقے میں، امرناتھ یاترا کو زیادہ منظم انداز میں انجام دینے کے لیے امرناتھ شرائن بورڈنے گورنمنٹ سے سوایکڑ (800 کنال) کی ایک زمین حاصل کی۔یہ زمین پہلے سے امرناتھ یاتریوں کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اب اُس کو مزید بہتر بنانے کے لیے یہ اقدام کیا گیا۔ امرناتھ شرائن بورڈمیں کچھ ممبر، ریاست جموں وکشمیر سے تعلق رکھتے تھے۔ اور کچھ ممبر، ریاست جموں وکشمیر کے باہر سے اُس میں شامل کئے گئے تھے۔اِس کو لے کر کشمیر کے مسلمانوں نے اعتراض کیا۔ انھوں نے کہا کہ ریاست جموں وکشمیر میں صرف ریاست کے باشندے خرید وفروخت کرسکتے ہیں۔ دستورِ ہند کی دفعہ 370 کے مطابق، ریاست کے باہر کا کوئی آدمی یہاں پراپرٹی خریدنے کا حق نہیں رکھتا۔
یہ ایک دستوری معاملہ تھا۔ اور دستوری معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے صحیح جگہ انڈیا کا سپریم کورٹ ہے۔ اِن کشمیری مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں اور خالص قانونی انداز سے اپنا کیس پیش کرکے، وہاں سے اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ مگر حریت کانفرنس کی کال پر کشمیر کے مسلمان سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ اِس کے بعد کشمیر میں سنگین صورتِ حال پیدا ہوئی، یہاں تک کہ ریاست کی کولیشن گورنمنٹ ٹوٹ گئی۔ آخر کار یہ ہوا کہ ریاست کے گورنر نے لینڈ کے سابقہ سودے کو منسوخ کردیا۔
اب ریاست کے مسلمانوں نے فتح کی خوشیاں منائیں۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ یہ فتح بلاشبہہ شکست سے بھی بد تر تھی۔ اِس کے بعد یہ ہوا کہ ہندو انتہا پسند گروپ کو موقع مل گیا۔ وہ بھی سڑکوں پر آگئے اور انھوں نے ایک نیا ایجی ٹیشن شروع کردیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ لینڈ کی یہ منسوخی ایک سیاسی منسوخی ہے۔ ایسا مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اب وہ ایک نیا مطالبہ لے کر اٹھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ لینڈ کی ڈیلنگ کو بحال کیا جائے اور اس کو امرناتھ شرائن بورڈ کے قبضے میں دے دیا جائے، یہ ایک مذہبی معاملہ ہے اور اِس میں حکومت کو کوئی دخل نہیں دینا چاہیے۔
یہ دوسرا ایجی ٹیشن، پہلے ایجی ٹیشن سے بھی زیادہ شدید تھا۔ تادمِ تحریر یہ دوسرا ایجی ٹیشن شدت کے ساتھ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق، جان ومال کا شدید نقصان ہورہا ہے۔ ریاست کے باشندے ناقابلِ برداشت قسم کی مشکلات کا شکار ہیں۔ ذمہ دار افراد کی کوششوں کے باوجود بظاہر حالات قابو میں نہیں آرہے ہیں۔
راقم الحروف کے نزدیک، اِس معاملے میں پہلی غلطی کشمیر کے مسلم لیڈروں کی تھی۔ اُن کو جاننا چاہیے تھا کہ دستورِ ہند کا معاملہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے دائرے میں آتا ہے۔ کسی شخص یا گروہ کو اگر کوئی دستوری اعتراض ہے، تو اُس کو اپنا معاملہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے سامنے لے جانا چاہیے۔ کشمیری لیڈر اپنا معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں لے گئے، بلکہ وہ اُس کو لے کر پُر جوش طورپر سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی۔ موجودہ صورتِ حال اِسی کی ایک قیمت ہے جس کو کشمیر کے مسلمان ادا کررہے ہیں۔
جہاں تک میں جانتا ہوں، جموں کی متنازعہ زمین بہت پہلے سے امرناتھ کے یاتریوں کے لیے استعمال ہورہی تھی۔ عملاً وہ پہلے بھی امرناتھ شرائن بورڈ کے استعمال میں تھی۔ نئی بات صرف یہ ہوئی تھی کہ اِس انتظام کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے اس کو قانونی شکل دے دی گئی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر کے مسلمانوں کو اِس معاملے میں اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ اُنھیں دل سے راضی ہوجانا چاہیے کہ وہ زمین بدستور، امرناتھ یاتریوں کے لیے استعمال ہوتی رہے، جیسا کہ وہ پہلے استعمال ہورہی تھی۔
اِس زمین کو زیادہ بہتر طورپر یاتریوں کے استعمال میں لانا، کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ کشمیر کے مسلمانوں کو خیر سگالی کے جذبے کے تحت، اِس پر راضی ہوجانا چاہیے۔ اِس زمین کو قانونی شکل دینے کے لیے اگرکچھ فنی یا ٹکنکل رکاوٹیں ہیں، تو اُن کو دور کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ دونوں فریق کو چاہیے کہ وہ باہمی طورپر پُر امن گفتگو کے ذریعہ اِن فنی رکاوٹوں کو دور کردیں، تاکہ اِس معاملے میں ڈیڈلاک ختم ہوجائے اور مذکورہ زمین امرناتھ یاتریوں کے لیے خوش گوار ماحول میں استعمال ہونے لگے، جیسا کہ وہ ماضی قدیم سے استعمال ہورہی تھی۔
دونوں فریقوں کو اِس معاملے میں سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔ دونوں کو چاہیے کہ وہ ملک اور ملک کے دستور کو اعلیٰ مقام دیں۔ وہ اپنی کوشش کو پُر امن دائرے تک محدود رکھیں، وہ کسی حال میں تشدد یا قانون شکنی کا طریقہ نہ اختیار کریں، وہ کوئی بھی ایسا اقدام نہ کریں جس کے نتیجے میں کشمیری باشندوں کے حقوق پامال ہونے لگیں اور ملک کا وقار مجروح ہو (9 اگست2008)۔