صبح کی تلاوت
قرآن کی سورہ نمبر 17 میں نمازِ فجر کی تلاوت کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: إنّ قرآن الفجر کان مشہوداً (الإسراء: 78) یعنی فجر کی قرأت حضوری کی قرأت ہے۔
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح سویرے کا وقت ایک خصوصی وقت ہے۔ اُس وقت فرشتوں کا زیادہ بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ اِس طرح فرشتوں کی زیادہ بڑی تعداد، نمازی کی قرأت کی گواہ بن جاتی ہے۔ صبح کے وقت فرشتوں کا زیادہ بڑا اجتماع کوئی پُراسرار چیز نہیں۔ فرشتوں کا خاص کام یہ ہے کہ وہ انسان کے اندر ربانی کیفیات پیدا کریں۔ صبح کا پُرسکون وقت اِس ملکوتی عمل میں خصوصی طورپر مدد گار بن جاتا ہے۔
اِس معاملے کی ایک توسیعی صورت بھی ہے۔ مثلاً آپ نے اول وقت میں فجر کی نماز ادا کی، اور امام کی زبان سے طویل قر أت کو سنا۔ اس کے بعد تلاوتِ قرآن سے احساس کو لے کر آپ مسجد سے باہر نکلے اور کسی کھلی فضا میں گئے، جہاں سر سبز درخت ہیں اور فطرت کا ماحول ہے۔ اُس وقت جب آپ قرآن کے پیدا کردہ ذہن کو لے کر فطرت پر غور کرتے ہیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی قرآنی سوچ اور خارجی ماحول دونوں ایک ہوگئے ہیں۔ فطرت کے مناظر خاموش زبان میں گواہی دے رہے ہیں کہ قرآنی فکر کے تحت جو کچھ تم سوچ رہے ہو، بلا شبہہ وہ ایک عالمی حقیقت ہے۔
جب ایک شخص صبح کے وقت فطرت کے ماحول میں خدا کی باتوں پر غور کرتا ہے، تو اُس وقت اس کو اپنے ماحول کے اندر خدا کی موجودگی (presence of God) کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اُس پر وہ کیفیت طاری ہوتی ہے جس کو حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ: خدا کی عبادت اِس طرح کرو، جیسے کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو (تعبد اللہ کأنک تراہ)۔ یہ کیفیت کوئی انسان خود سے اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتا، یہ کیفیت بلا شبہہ فرشتوں کی مدد سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ داخلی سوچ کا خارجی ماحول میں مشاہدہ کرنا ہے۔ یہ ایک اعلیٰ عبادت ہے، اور ایسی عبادت کا تجربہ فرشتوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔