امر ِ موعود، امر ِمقصود

قرآن کی سورہ نمبر 24 میں اجتماعی زندگی کے بارے میں ایک حکم بیان ہوا ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میں اقتدار عطا کرے گا، جیسا کہ اُن سے پہلے لوگوں کو اقتدار عطا کیا تھا، اوراُن کے لیے ان کے اُس دین کو جمادے گا جس کو ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور ان کے خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کرے، تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں ‘‘ (النّور: 55)۔

قرآ ن کی اِس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر سیاسی اقتدار کی حیثیت امر ِموعود کی ہے، نہ کہ امرِ مقصود کی۔ مسلمانوں کے لیے اپنے عمل کا نشانہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے اندر ایمان اور عملِ صالح کی صفات پیدا کریں، وہ اپنی ساری توجہ اِسی داخلی نشانے پر لگادیں۔

جہاں تک زمین پر سیاسی غلبہ کا معاملہ ہے، اس کا تعلق تمام تر اللہ تعالی سے ہے۔ زمین پر سیاسی غلبہ کا فیصلہ براہِ راست اللہ تعالی کی طرف سے ہوتا ہے، اور وہ اُسی کو ملتا ہے جس کے لیے اللہ نے اس کا فیصلہ کیا ہو(آل عمران: 26)۔

اِس سے معلوم ہوا کہ سیاسی نظام کے قیام کو نشانہ بنا کر عمل کرنا، ایک مبتدعانہ عمل ہے۔ وہ دین کے نام پر بے دینی ہے۔ وہ اسلام کے نام پر اسلام سے انحراف کرنا ہے۔ اِس قسم کی کوشش کو کبھی خدا کی نصرت نہیں ملے گی، اِس لیے ایسی کوشش کبھی کامیاب ہونے والی نہیں۔

قرآن اور حدیث کے مطابق، اسلام میں امرِ مقصود، یا نشانۂ مطلوب، ایمان اور عملِ صالح اور دعوت الی اللہ ہے۔ اِس کے سوا جو چیزیں ہیں، وہ سب امرِ موعود سے تعلق رکھتی ہیں، یعنی وہ خدا کے فیصلے سے کسی کو ملیں گی، نہ کہ ان کو نشانہ بنا کر ان کے لیے براہِ راست کوشش کرنے سے۔ اسلام کی پوری تاریخ اِس سنت الٰہی کی تصدیق کرتی ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom