سوال وجواب
سوال
عرض ہے کہ میں ازدواجی زندگی کے مسائل میں گھرا ہوا ہوں۔ مجھ کو اپنی بیوی کی طرف سے مسلسل شکایت رہتی ہے۔ وہ خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا ذہنی معیار بہت پست ہے۔ اِس لیے گھر میں طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اِس کی وجہ سے میں سخت قسم کے ذہنی تناؤ میں مبتلا ہوں۔ براہِ مہربانی، میرے اِس مسئلے کا کوئی حل تجویز فرمائیں (ایک قاری الرسالہ، جموں و کشمیر)۔
جواب
آپ جس ذہنی تناؤ میں مبتلا ہیں، اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے اِس کا سبب خود اپنے اندر ڈھونڈنا۔ اب تک آپ اس کا سبب فریقِ ثانی کے اندر ڈھونڈتے رہے۔ اب آپ یہ کیجیے کہ اس کا سبب اپنے اندر تلاش کیجیے اور خود اپنے آپ کو بدلیے۔ آپ کے مسئلے کا یہی واحد حل ہے، اِس کے سوا کوئی اور ممکن حل موجود نہیں۔
اصل یہ ہے کہ آدمی کی زندگی میں جب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا ہے، تو وہ فوراً یہ کرتا ہے کہ خود اپنے ذہنی معیار کے مطابق، اُس کا حل تلاش کرنے لگتا ہے۔ مگر جب اس کے خود ساختہ فارمولے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، تو وہ فریقِ ثانی کو الزام دینے لگتا ہے۔ اس کی سوچ یہ بن جاتی ہے کہ میں تو صحیح ہوں، یہ دراصل دوسرا فریق ہے جو مسئلہ پیدا کررہا ہے۔ یہ آئڈیل ازم (idealism) کا طریقہ ہے، مگر اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ—یہاں آئڈیل ازم کبھی حاصل نہیں ہوتا:
Idealism cannot be achieved in this world.
آپ کے لیے ذہنی تناؤ سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے، اور وہ پریکٹکل طریقہ ہے، یعنی یہ دیکھنا کہ موجودہ صورتِ حال میں عملی طورپر کیا ممکن ہے، نہ یہ کہ معیاری اعتبار سے کیا ہونا چاہئے۔ اسی طریقے کا نام حکمت ہے۔ اور ہر مسئلہ صرف حکمت کے ذریعے حل ہوتا ہے۔
پریکٹکل طریقہ اختیار کرنے کا مطلب پسپا ہونا یا شکست قبول کرنا نہیں ہے، بلکہ اِس کا مقصد اپنے لیے فرصتِ عمل تلاش کرناہے۔ ذہنی تناؤ کے ساتھ کوئی شخص، مواقع کو استعمال (avail) نہیں کرسکتا۔ اِس لیے عقل مندی یہ ہے کہ آدمی یک طرفہ طورپر ایڈجسٹ کرلے، تاکہ وہ مواقع کو زیادہ بہتر طورپر استعمال کرنے کے قابل ہوسکے۔
ذہنی تناؤ ایک قسم کی نفسیاتی خود کُشی ہے۔ ذہنی تناؤ ہمیشہ کسی خارجی سبب سے پیداہوتاہے۔ اور آدمی اُس سے متاثر ہو کر خود اپنے آپ کو اس کی سزا دینے لگتا ہے۔ ایسی نادانی آپ کیوں کریں۔ اس خود اختیارکردہ سزا سے بچنے کی آسان تدبیر یہ ہے کہ آدمی آئڈیل ازم کو چھوڑ دے، وہ پریکٹکل بن جائے۔ وہ اُس فارمولے کو اختیار کرے جس کو ایک شخص نے مثال کی صورت میں اِس طرح بیان کیا ہے: ’’اگر تم چوکور ہو، اور تم کسی گول خانے پڑجاؤ تواپنے آپ کو گول بنالو‘‘۔ یہ شکست کا فارمولا نہیں ہے، بلکہ وہ فتح کا فارمولا ہے۔ کیوں کہ ایسا کرکے آدمی اپنے آپ کو نفسیاتی ہلاکت سے بچا لیتا ہے۔
سوال
میں کافی عرصے سے مستقل طورپر آپ کے مؤقر علمی اور دعوتی مجلہ ماہ نامہ الرسالہ کا مطالعہ کررہا ہوں۔ میں نے ہر لحاظ سے الرسالہ کو مفید اورچشم کشا پایا ہے۔مدرسہ کے دیگر اساتذہ بھی الرسالہ سے برابر استفادہ کررہے ہیں۔ ادارے کے بہت سے نزاعی امور کو حل کرنے میں بھی الرسالہ نے ہمیں خالص عملی رہ نمائی دی اور کئی نازک مسائل نہایت احسن طریقے سے حل ہوگئے۔ تاہم ایک چیز جو مجھے آپ سے عرض کرنا ہے، وہ یہ کہ بسا اوقات آپ ایک انگریزی عبارت نقل کرتے ہیں، مگراس کا ترجمہ درج نہیں ہوتا۔ اِس سے پوری بات سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اگر آپ ہر انگریزی عبارت کا ترجمہ بھی تحریر فرمادیں تو ہم جیسے لوگوں کے لیے الرسالہ سے مزید استفادہ کرنا آسان ہوجائے گا (مولانا محمد شاہد قاسمی، ہریانہ)۔
جواب
ماہ نامہ الرسالہ میں انگریزی عبارتیں بھی ہوتی ہیں اور قرآن اورحدیث کے حوالے بھی۔ اکثر ان کا ترجمہ ساتھ ساتھ موجود رہتا ہے، مگر کبھی کبھی ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا بھول کر نہیں ہوتا، بلکہ ایسا بالقصد کیا جاتا ہے۔ ایسا ایک مقصد کے تحت کیا جاتا ہے۔ الرسالہ کے قارئین کو چاہیے کہ وہ اِس مقصد کو سمجھیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، الرسالہ ایک مشن ہے۔ مشن لازمی طورپر انٹریکشن (interaction) چاہتا ہے۔ بعض اوقات ترجمہ نہ دینے کا مقصد قارئین کے لیے انٹریکشن کے اِنھیں مواقع کو پیداکرنا ہے۔ مثلاً جب الرسالہ میں کوئی انگریزی لفظ یا انگریزی جملے ہوں اوران کا ترجمہ وہاں موجود نہ ہو، تو غیر انگریزی داں قاری کو چاہیے کہ وہ الرسالہ کو لے کر آس پا س کے کسی انگریزی داں آدمی سے ملے، اور اُس کے ذریعے سے انگریزی عبارت کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس طرح، قارئین الرسالہ کی ملاقات دوسرے لوگوں سے ہوگی اورنتیجۃً ایسی ملاقات مشن کی توسیع کا ذریعہ بن جائے گی۔
اِسی طرح، جب کبھی الرسالہ میں قرآن اور حدیث کا کوئی حوالہ ہو اور وہاں اس کا ترجمہ موجود نہ ہو، تو غیر عربی داں قاری کو چاہیے کہ وہ الرسالہ کو لے کر قریب کے کسی عالم سے ملے۔ وہ اُس عالم کی مدد سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس طرح یہ ہوگا کہ الرسالہ کے قارئین کا تعلق علما سے بڑھے گا اور اس کے نتیجے میں ان کو بہت سے دینی فوائد حاصل ہوں گے۔
الرسالہ کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ اِس کے قارئین کا عمومی انٹریکشن بڑھے، جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لوگوں کا تعلق علما سے قائم ہو، اور اِسی طرح، علما کاتعلق جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لوگوں سے قائم ہو۔ اِس طرح، دونوں کے اجتماع سے دینی اور دعوتی فوائد کے علاوہ، ان کے لیے ذہنی ارتقا کا دروازہ کھلے اور وہ زیادہ بہتر طورپر الرسالہ کے دعوتی مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا رول ادا کرسکیں۔