کم زور دفاع

ایک صاحب جو جاہل اور غریب عوام میں کام کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ میں بہت سالوں سے اِس طبقے میں کام کررہا ہوں۔ میں نے پایا کہ یہ لوگ بہت زیادہ جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جھوٹ ہی ان کا کلچر ہے۔ میں نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے۔ آخر کار میری سمجھ میں آیا کہ یہ لوگ دفاع کے طورپر جھوٹ بولتے ہیں۔ اِس طبقے کا کوئی شخص جب ایک غلطی کرتاہے اور اس کا آقا اُس سے باز پُرس کرتا ہے، تو وہ اپنی کم زوری کی بنا پر محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی اور انداز سے اپنا دفاع نہیں کرسکتا، اِس لیے وہ فوراً جھوٹ بول دیتا ہے اورکہتا ہے کہ میں نے ایسا نہیں کیا۔

کم زور دفاع کا یہ طریقہ صرف جاہل عوام کی اجارہ داری نہیں، وہ پڑھے لکھے لوگوں میں بھی عام طورپر پایا جاتاہے۔ اِس معاملے کا ایک تجربہ مجھے ذاتی طورپر پیش آیا۔میں تقریباً پچاس سال سے ایک مشن چلا رہا ہوں بعض لوگوں کو کسی سبب سے مجھ سے اختلاف ہوگیا۔ انھوں نے تقریر اور تحریر کے ذریعے میرے خلاف زبردست مہم شروع کردی۔ آپ اِن لوگوں کی تقریروں اور تحریروں کو پڑھیے، آپ پائیں گے کہ اِن میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں جس نے علمی دلائل کے ذریعے، راقم الحروف کے نقطۂ نظر کا تجزیہ کیا ہو۔ اِن میں سے ہر ایک صرف ایک کام کررہا ہے، اوروہ ہے کوئی منفی شوشہ نکال کر مجھ کو اور میرے مشن کو بدنام کرنا۔

یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ کم زور دفاع کاایک معاملہ ہے۔ یہ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ دلیل کے میدان میں وہ شکست کھاچکے ہیں۔ خالص علمی دلائل کے ذریعے وہ میرے نقطۂنظر کو غلط ثابت نہیں کرسکتے، اِس لیے وہ عیب زنی اور الزام تراشی کے ذریعے مجھ کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ نہ صرف غیرمتقیانہ ہے، بلکہ وہ علمی ذوق کے اعتبار سے نہایت پست طریقہ ہے۔ یہ دفاع کے نام پر خود اپنی شکست کااعلان کرنا ہے۔

یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ کسی شخص کے پاس اپنے دشمن کو مارنے کے لیے اگر بم ہو، تو وہ ہرگز ایسا نہیں کرے گا کہ وہ کنکری سے اپنے دشمن کو مارنے لگے۔ یہی معاملہ تنقید کا ہے۔ ایک ناقد کے پاس اگر علمی دلیل ہو، تو یہ ممکن نہیں کہ وہ عیب زنی اورالزام تراشی کے ذریعے اپنے حریف کا مقابلہ کرے۔ ایسا آدمی لازمی طورپر علمی دلائل کے ذریعے تنقید کرے گا۔ اِس لیے جو لوگ ہمارے مشن کے خلاف الزام تراشی کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ خود اپنے بارے میں یہ اعلان کررہے ہیں کہ ان کے پاس علمی دلائل موجود نہیں ہیں۔ اگر ان کے پاس علمی دلائل موجود ہوتے، تووہ ہر گز کم زور دفاع کا موجودہ طریقہ اختیار نہ کرتے۔

اِسی طرح کی ایک مثال موجودہ زمانے کے مسلم علماء کے یہاں ملتی ہے۔ یہ علماء کچھ لوگوں کو گُم راہ، یا بددین سمجھتے ہیں۔ وہ ان کے خلاف تقریر اور تحریر کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔مثلاً منکرینِ حدیث، منکرینِ ختم نبوت، وغیرہ۔ مسلم علماء اِن ’’منکرین‘‘ کے خلاف کتابیں چھاپتے ہیں اور جلسے کرتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں، مگر یہ سب میرے نزدیک کم زور دفاع کی مثالیں ہیں۔ اِس طرح کے لفظی ہنگاموں، یا مخالفانہ فتویٰ شائع کرنے سے ’’منکر‘‘ گروہوں کا نہ اب تک کوئی نقصان ہوا ہے اور نہ آئندہ اِس سے ان کا کوئی نقصان ہوگا۔

اصل کام یہ ہے کہ اِن ’’منکرین‘‘ کے نظریے کا گہرا مطالعہ کرکے، اُن کے اُس نظریے کو سمجھا جائے جس کے اوپر انھوں نے اپنی بنیاد کھڑی کی ہے اور پھر علمی دلائل کے ذریعے اِس نظریے کا باطل ہوناثابت کیا جائے۔ علماء کا موجودہ طریقہ بلاشبہہ ایک کم زور دفاع ہے، اور کم زور دفاع کا یقینی طورپر کوئی فائدہ نہیں۔ کم زور دفاع خود اپنی کم زوری کا اعلان ہے، نہ کہ دوسرے کی تردید یا دفاع۔

مقابلے کی اِس دنیا میں آدمی کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (choice) ہے— صبر یا حقیقی دفاع۔ آدمی یا تو نتیجہ خیز دفاع کرے، اور اگر وہ نتیجہ خیز دفاع کی پوزیشن میں نہ ہو تو وہ صبر کرلے۔ اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ اگر آدمی نزاعی معاملے میں یک طرفہ طورپر صبر کرے، تو حالات خود بخود اس کی طرف سے خاموش دفاع کرنے لگتے ہیں۔ ایسی حالت میں بے نتیجہ دفاع کرنا، فطرت کے عمل کو روکنے کے ہم معنیٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بے نتیجہ دفاع صرف ایک نادانی ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی دفاعی عمل۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom