ٹیم ورک کی اہمیت
مولانا مناظر احسن گیلانی (وفات:1956) ایک بار دارالمصنفین (اعظم گڑھ) آئے تھے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ مولانا سید سلیمان ندوی (وفات: 1953) یہاں رہا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی ذاتی محنت سے بہت سی اہم کتابیں تصنیف کی تھیں۔ اِس کاذکر کرتے ہوئے مولانا گیلانی نے کہا— یورپ میں جو کام اکادمی کرتی ہے، ہندستان میں اُس کو اک آدمی کرتا ہے۔ میں کہوں گا کہ قدیم حالات میں کوئی ایک شخص بھی بڑا کام کرسکتا تھا۔ لیکن موجودہ حالات میں کوئی بڑا کام کرنے کے لیے ٹیم ورک لازمی طورپر ضروری ہوگیا ہے۔
موجودہ زمانے میں علم کا جو اعلیٰ معیار قائم ہوا ہے، اُس اعلیٰ معیار پر کوئی بڑا علمی کام ایک فرد انجام نہیں دے سکتا، اُس کو انجام دینے کے لیے ایک ٹیم درکار ہوتی ہے۔ چناں چہ موجودہ زمانے میں تمام بڑے بڑے علمی کام ٹیم کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ مسلمان موجودہ زمانے میں وقت کے اعلیٰ علمی معیار پر کوئی کتاب تیار نہ کرسکے۔ اُس کا سبب یہی ہے کہ اُن کے یہاں ابھی تک ایک فرد کتاب لکھتا ہے، اکیڈمک ورک(academic work) کا ابھی تک مسلمانوں کے یہاں رواج نہیں۔
اِس معاملے میں ایک سبق آموز مثال قرآن کے انگریزی ترجمے کی ہے۔ پرنٹنگ پریس کے زمانے میں، قرآن کے بہت سے انگریزی ترجمے کیے گئے ہیں۔ اکثر انگریزی ترجمے ہمارے یہاں موجود ہیں۔ یہ تمام ترجمے شخصی کوشش کے ذریعے تیار کیے گئے ہیں۔ میں عرصہ دراز سے قرآن کے انگریزی ترجمے دیکھتا رہا ہوں۔ میں نے پایا ہے کہ ہر ترجمے میں دو بنیادی کمی پائی جاتی ہے۔ ایک، یہ کہ بہت سے مقامات پر ترجمے غلط کیے گئے ہیں، اور دوسری بات یہ کہ اِن ترجموں میں وضوح (clarity) بہت کم ہے۔ قرآن کی خاص صفت یہ ہے کہ اس کے اندر کمال درجے میں وضوح پایا جاتا ہے۔ لیکن اِن انگریزی ترجموں میں قرآن کی یہی اہم صفت بڑی حد تک موجود نہیں۔
قرآن کے موجودہ انگریزی ترجموں میں اِس کمی کا احساس مجھ کو بہت پہلے ہوچکا تھا۔ یہ احساس مجھ کو ستاتا تھا کہ وقت کی بین اقوامی زبان میں خدا کی کتاب کا صحیح اورموثر ترجمہ موجود نہیں۔ میں اِس کام کو وقت کے مسلمّہ معیار پر کرنا چاہتا تھا۔ اِس کے لیے میں نے بہت سے اہلِ علم کو متوجہ کرنا چاہا، مگر کوئی اِس کے لیے تیا ر نہ ہوا۔آخر کار میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود اِس کام کی ذمے داری لوں اور ٹیم ورک کے ذریعے قرآن کا مطلوب انگریزی ترجمہ تیار کرنے کی کوشش کروں۔
پچھلے تقریباً بیس سال سے میں اور میرے ساتھی خاموشی کے ساتھ اِس کام میں اپنی کوشش صرف کرتے رہے ہیں۔ میرے سوا، کئی لوگ مثلاً ڈاکٹر فریدہ خانم، ڈاکٹر ثانی اثنین خاں وغیرہ اِس مشکل کام میں ڈیڈی کیشن کے ساتھ مشغول رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے قرآن کا یہ انگریزی ترجمہ تیار ہوچکا ہے اور اب اُس کا د وسرا ایڈیشن چھپ رہا ہے۔ یہ انگریزی ترجمہ پورے معنوں میں ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ اِس کے ذریعے پہلی بار قرآن کا ایک ایسا انگریزی ترجمہ وجود میں آیا ہے جو ان شاء اللہ درست بھی ہے اور وضوح (clarity) اُس کے اندر پوری طرح پایا جاتاہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ اسلام کا کلمہ ساری دنیا کے ہر گھر میں پہنچ جائے گا۔ میرا احساس یہ ہے کہ اِس حدیث میں کلمۂ اسلام سے مراد کلام الٰہی (Word of God) ہے، یعنی قرآن۔ اِس حدیث میں جس واقعے کی پیشین گوئی کی گئی ہے، اُس کا تعلق پرنٹنگ پریس کے زمانے سے ہے۔ یہ صرف موجودہ پریس کے زمانے میں ممکن ہوا ہے کہ قرآن کے مطبوعہ نسخے تمام دنیا کے ہر گھر میں پہنچا دیئے جائیں۔ اب جب کہ اللہ کی توفیق سے، وقت کی بین اقوامی زبان میں قرآن کا صحیح ترجمہ وجود میں آچکا ہے، پوری ملت کا یہ فرض ہے کہ وہ متحدہ کوشش کے ذریعے قرآن کے اِس نسخے کو سارے عالم تک پہنچا دے، وہ اُس کو دنیا کے ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں داخل کردے۔
میرا احساس ہے کہ اِس طرح قرآن کا ساری دنیا میں، ہر گھر اور ہر مقام میں، پہنچ جانا اتمامِ حجت کا آخری واقعہ ہوگا۔ انسانی تاریخ غالباً اپنے آخری دور میں پہنچ چکی ہے۔ اِس آخری دور میں جو سب سے بڑا دعوتی کام انجام پانا ہے، وہ بلاشبہہ یہی ہے کہ خدا کا کلام خدا کے تمام بندوں تک ان کی قابلِ فہم زبان میں پہنچا دیا جائے۔