تاریخِ عالم پر ایک تبصرہ
سیکولر نظریے کے مطابق، دنیا کی تاریخ چار بڑے اَدوار پر مشتمل ہے— بگ بینگ کا واقعہ، مادّی ترقیات، تہذیب کی ترقی، خاتمۂ تاریخ:
Big Bang, material development, civilizational development, abrupt end.
سیکولر نظریے کے مطابق، تقریباً پندرہ بلین سال پہلے بگ بینگ کے ذریعے موجودہ کائنات کا آغاز ہوا۔ اِس کے بعد لمبے ارتقائی عمل کے ذریعے موجودہ مادّی دنیا بنی۔ انسان کے ظہور کے بعد تہذیبی ترقی شروع ہوئی۔ اکیسویں صدی عیسوی میں گلوبل وارمنگ(global warming)کا ناقابلِ حل مسئلہ سامنے آگیا۔ اور اب تمام سائنس داں یہ کہہ رہے ہیں کہ ہماری دنیا میں جو طبیعی تغیرات ہورہے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ 2050 سے پہلے ہی اِس دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔
موجودہ دنیا کی یہ سیکولر تصویر ناقابلِ فہم حد تک عجیب ہے۔ سیکولر نظریہ بتاتا ہے کہ پچھلے پندرہبلین سال سے ہماری دنیا میں مسلسل طور پر بامعنٰی ارتقا جاری رہا ہے، یہاں تک کہ موجودہ کائنات بنی، جو انتہائی حدتک بامعنی کائنات تھی۔ اب گلوبل وارمنگ کے ذریعے اگر دنیا کسی مزید مستقبل کے بغیر آخری طورپر فنا ہوجائے تو یہ ایک بامعنی آغاز کا ایک بے معنٰی انجام ہوگا، جو بلاشبہہ عقلی طورپر ناقابلِ فہم ہے۔مثال کے طورپر نظریۂ ارتقا یہ کہتا ہے کہ انواعِ حیات کے درمیان بقائے اصلح(survival of the fittest) کا عمل جاری رہا ہے۔ اِس نظریے کے مطابق، اِسی ارتقائی عمل کا یہ نتیجہ تھا کہ انسان جیسی ایک اعلیٰ نوع وجود میں آئی۔ اب یہ سرتاسر ایک غیر عقلی (irrational)بات ہے کہ بقائے اصلح کا عمل اپنے آخر میں صرف ایک معکوس انجام پر ختم ہوجائے:
It is unthinkable that the survival of the fittest may lead to the extinction of the fittest.
خود فطرت کا قانون یہ تقاضا کرتا ہے کہ کائناتی پراسس اپنے آخر میں ایک بہتر دنیا کو وجود میں لانے کا ذریعہ ہے۔