جب اسلام اجنبی بن جائے
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدأ الإسلام غریباً وسیعود کما بدأ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان) یعنی اسلام شروع ہوا تو وہ اجنبی تھا۔بعد کے زمانے میں اسلام دوبارہ اجنبی ہوجائے گا۔
اِس معاملے کی ایک مثال حکمتِ حُدیبیہ ہے۔ قرآن میں حکمت ِ حدیبیہ کو فتحِ مبین (الفتح:1) کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ مگر دورِ نبوت کے بعد دوبارہ حکمتِ حدیبیہ کو دہرایا نہیں گیا، پوری مسلم تاریخ حکمتِ حدیبیہ کی دوسری مثال سے خالی ہے۔ حدیث کے مطابق، اِس کا سبب یہ ہے کہ اسلام خود مسلمانوں کے درمیان اجنبی ہو کر رہ گیا۔
حکمتِ حدیبیہ کیا ہے۔ حکمتِ حدیبیہ یہ ہے کہ مخالفین سے یک طرفہ صلح کرکے حالات کو معتدل بنانا اور پھر مواقع(opportunities) کو اپنے حق میں استعمال کرنا۔ یہ بلاشبہہ ایک فاتحانہ حکمت ہے۔ مگر اِس فاتحانہ حکمت کو استعمال کرنے کے لیے آدمی کو پیچھے ہٹنا پڑتا ہے، بظاہر وقتی ہزیمت کو برداشت کرنا پڑتا ہے، اپنے جذبات کو دبا کر خالص عقلی فیصلہ لینا پڑتا ہے، اِس بنا پر حکمتِ حدیبیہ کو اختیار کرنا ایک قربانی کا عمل بن جاتا ہے۔ لوگ اِس قربانی کو دے نہیں پاتے، اِس لیے وہ حکمت حدیبیہ کو استعمال بھی نہیں کر پاتے۔
موجودہ زمانے میں لوگ حکمتِ حدیبیہ سے اتنے زیادہ بے خبر ہوچکے ہیں کہ اگرآج حکمتِ حدیبیہ کی بات کی جائے تو لوگ اس کو بزدلی اور پسپائی کہہ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔ لوگوں کی اِسی بے خبری کا نتیجہ ہے کہ حدیبیہ جیسا فتحِ مبین کا واقعہ تاریخ میں دوبارہ دہرایا نہ جاسکا۔ لوگ غیر ضروری طورپر لڑکر اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہیں۔ حالاں کہ عین اُسی وقت، حکمتِ حدیبیہ اُن کے لیے زندگی کا پیغام دے رہی ہے۔ فتحِ مبین کا امکان ہوتے ہوئے، وہ شکستِ مبین کو قبول کیے ہوئے ہیں— کیسے عجیب ہوں گے وہ مسلمان جن کے درمیان خود اسلام اجنبی ہو کر رہ جائے۔