آگ کی طرف چھلانگ
موجودہ زمانے میں جگہ جگہ ایسا ہورہا ہے کہ کچھ انتہا پسندمسلمان خود ساختہ تصورِ شہادت (استشہاد) کے تحت، خود کُش بم باری (suicide bombing) کررہے ہیں۔ وہ مفروضہ دشمن کو نقصان پہنچا نے کے لیے اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہیں۔ یہ بلا شبہہ خود کشی کا فعل ہے جو اسلام میں ثابت شدہ طورپر حرام ہے، اور حرام موت کا انجام یقینی طور پر جہنم ہے۔ عجیب بات ہے کہ مسلم رہ نما اِس حرام فعل کی کھلی مذمت نہیں کرتے، بلکہ عرب علماء استشہاد (طلب شہادت) کے خود ساختہ تصور کے تحت اس کو جائز ٹھیرا رہے ہیں۔
اِس معاملے پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ مشرقی یوپی میں ایک مسلمان تھے۔ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے، لیکن وہ اچھی تقریر کرنا جانتے تھے۔ انھوں نے اپنے لیے کسبِ معاش کا یہ طریقہ نکالا کہ وہ جہاں دیکھتے کہ لوگ مسجد بنوانا چاہتے ہیں، وہ اُن سے کہتے کہ تم لوگ مجھ کو مسجد کے لیے چندہ کرنے کا ٹھیکہ دے دو۔ میں مسجد کی تعمیر کے لیے سارا پیسہ لاؤں گا، اُس میں پچاس فی صد میرا ہوگا اور پچاس فی صد تمھارا ہوگا۔ اِس طرح کا معاملہ کرکے وہ نکلتے۔ وہ جگہ جگہ مسلمانوں کا اجتماع کرتے۔ وہاں وہ پُر جوش تقریریں کرکے لوگوں کو مسجدکی تعمیر پر ابھارتے۔
حدیث کی مختلف کتابوں میں تعمیرمسجد کے بارے میں ایک روایت آئی ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : من بنی للّٰہ مسجداً، بنی اللہ لہ بیتاً فی الجنۃ۔ (بحوالہ مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث، 697)، یعنی جس شخص نے اللہ کے لیے ایک مسجد تعمیر کی، اللہ اُس کے لیے جنت میں ایک گھر تعمیر کرے گا۔ وہ اِس حدیث کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کرتے اور پھر جذباتی انداز میں مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہتے— کود جھما جھم جنت میں۔ اِس کے بعد لوگ دل کھول کر مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ دیتے۔
موجودہ زمانے میں خود کش بم باری کے واقعات کثرت سے ہورہے ہیں۔ اِن خبروں کو سُن کر میں نے کہا کہ موجودہ مسلمانوں نے اِس معاملے میں نیا طریقہ نکالا ہے۔ پہلے اگر فارمولا یہ تھا کہ— کود جھما جھم جنت میں، تو اب لوگوں کا فارمولا یہ ہوگیا ہے کہ— کود جھما جھم دوزخ میں۔
یہ انتہا پسندانہ ذہن مسلمانوں کے اندر کیوں پیدا ہوا۔ اِس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ دشمنی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے بعض سیاسی اسباب کی بنا پر تمام انسانوں کو اپنا دشمن سمجھ لیا ہے۔ وہ ہر ایک سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ آدمی جب دشمنی اور نفرت کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے تو وہ اپنے مفروضہ دشمن کے مقابلے میں اندھے پن میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ بڑھی ہوئی نفرت کی بنا پر اس کا ذہن یہ ہوجاتا ہے کہ مجھے اِس دشمن کو ہلاک کرنا ہے، خواہ اُس کے نتیجے میں خود میں بھی ہلاک ہوجاؤں۔
یہ وہ نفسیات ہے جس کو قرآن میں شیطان کی طرف منسوب کیاگیا ہے۔ قرآن میں شیطان کو انسان کا ازلی دشمن بتایاگیاہے: إن الشیطان للإنسان عدوّ مبین (یوسف: 5)۔ قرآن کے مطابق، اللہ تعالی نے شیطان سے کہا کہ ایسا کرنے کی بنا پر تم کو جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا۔ اِس علم کے باوجود شیطان کی عداوتی سرگرمی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ پوری تاریخ میں انسان کے خلاف شیطان کی یہ دشمنانہ سرگرمیاں مسلسل طور پر جاری رہی ہیں۔ قرآن کے اِس حوالے سے معلوم ہوتاہے کہ دشمنی کی نفسیات اتنی زیادہ بُری چیز ہے کہ ایسے لوگ ہر حال میں اپنے مفروضہ دشمن کو نقصان پہنچانا چاہیں گے، خواہ اِس کے نتیجے میں خود اُن کو جہنم کی آگ میں ڈھکیل دیا جائے۔
قرآن کا یہ حوالہ اُن لوگوں کے لیے ایک انتباہ ہے جو دوسری قوموں کے خلاف دشمنی اور نفرت میں اتنا زیادہ مغلوب ہوگئے ہیں کہ وہ خود کش بم باری کی حد تک جاکر اُنھیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، حالاں کہ خود کشی کا مطلب حرام موت مرنا ہے، اور حرام موت کا انجام بلا شبہہ جہنم کی آگ ہے۔ جو لوگ اِس بھیانک عمل میں مبتلا ہیں اور جو لوگ اُس کی کھلی مذمت نہیں کرتے، دونوں کو اِس سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کہیں اِس خدائی وارننگ کا مصداق نہ بن جائیں : لأملئن جہنّم منک وممّن تبعک منہم أجمعین (ص: 85)
دشمنی اور نفرت کے جذبات سے مغلوب ہوکر خود کش بم باری کرنا گویا کہ جان بوجھ کر جہنم کی طرف چھلانگ لگانا ہے۔ یہ بے حد سنگین معاملہ ہے، خود کش بم باری کرنے والوں کے لیے بھی اور جو لوگ اِس پر کھلی نکیر نہ کریں، اُن کے لیے بھی۔