پیغمبر کا اُسوہ
قرآن کی سورہ نمبر 12میں حضرت یوسف کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اِس قصے کو قرآن میں احسن القصص (یوسف: 2) کہاگیا ہے۔ اِس قصے کے ’احسن القصص‘ ہونے کے کئی پہلو ہوسکتے ہیں، لیکن اُس کا ایک پہلو، حضرت یوسف کا وہ طریقِ کار (method)ہے جو انھوں نے بادشاہِ وقت کے معاملے میں اختیار کیا۔اِس طریقِ معاملہ کو قرآن میں اس طرح بتایا گیا ہے کہ بادشاہِ مصر نے حضرت یوسف کی شخصی صلاحیت سے متاثر ہو کر اُن سے کہاکہ تم کو میری سلطنت کے خزائن (یوسف: 55) پر اختیار ہوگا، تاہم جہاں تک ملک کے قانونی نظام کا تعلق ہے، اُس میں حسبِ سابق، بادشاہ کا قانون جاری رہے گا۔ اِسی بات کو بائبل میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے:
اور فرعون (شاہِ مصر) نے یوسف سے کہا: چوں کہ خدانے تجھے یہ سب کچھ سمجھا دیا ہے، اِس لیے تیری مانند دانش ور اور عقل مند کوئی نہیں۔ سو، تو میرے گھر کا مختار ہوگا، اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی۔ فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا:
Then Pharaoh said to Joseph, “Inasmuch as God has shown you all this, there is no one as discerning and wise as you.You shall be over my house, and all my people shall be ruled according to your word; only in regard to the throne, will I be greater than you”. (Genesis 41:39-40)
حضرت یوسف کے زمانے میں مصر کا جو بادشاہ تھا، وہ ایک حقیقت پسند آدمی تھا۔ عام بادشاہوں کی طرف وہ جارحانہ مزاج کا انسان نہ تھا۔ چناں چہ وہ راضی ہوگیا کہ تخت کا مالک میں رہوں، لیکن اُمورِ سلطنت کو حضرت یوسف انجام دیں۔ حضرت یوسف نے بادشاہ کی اِس پیش کَش کو قبول کرلیا۔ بادشاہ کے برائے نام اقتدار کے تحت، وہ اپنا پیغمبرانہ مشن چلاتے رہے۔
قرآن کے مطابق، ہر پیغمبر کا عمل ہمارے لیے یکساں طورپر درست نمونے کی حیثیت رکھتاہے (الأنعام: 90)۔ اِس بنا پر حضرت یوسف کا نمونہ بھی ہمارے لیے اتنا ہی قابلِ اتّباع ہے،جتنا کہ پیغمبراسلام یا اورکسی پیغمبر کا نمونہ۔ یہ نمونہ اِس اصول پر مبنی ہے کہ اگر سیاسی حاکم اصل مشن میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے تو اُس سے ٹکراؤ نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ اُس کو تسلیم کرتے ہوئے اُس کے تحت، اپنے مثبت اور تعمیری کام کی منصوبہ بندی (planning) کی جائے گی۔
حضرت یوسف کو یہ موقع اِس لیے ملا تھا کہ ان کا مُعاصر بادشاہ حقیقت پسندآدمی تھا۔ موجودہ زمانے میں اب یہ معاملہ کسی کے شخصی مزاج کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ یوسفی اصول اب عالمی طورپر تسلیم شدہ اصول (universally accepted principle) کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔
اب اس دورِآزادی میں تمام حکم رانوں نے یہ مان لیا ہے کہ وہ اپنے مخصوص سیاسی دائرے کے باہر کسی معاملے میں تعرّض نہیں کریں گے۔ لوگوں کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ جس طرح چاہیں، اپنے امور کی تنظیم کریں، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ وہ دوسروں کے خلاف تشدد کا کوئی فعل نہیں کریں گے۔
حضرت یوسف کے زمانے میں جو چیز استثنائی موقع کی حیثیت رکھتی تھی، وہ اب عمومی موقع کی حیثیت حاصل کرچکی ہے۔ اِس موقع کو دعوتِ حق کے لیے استعمال کرنا، پیغمبر کے طریقے کی پیروی ہے۔ اور اِس کے خلاف عمل کرنا، پیغمبر کے طریقے سے انحراف (deviation) کے ہم معنیٰ ہے۔
مذکورہ یوسفی اُسوہ کی مثال خود پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں موجود ہے۔ پیغمبراسلام اپنی نبوت کے ابتدائی زمانے میں جب مکہ میں تھے تو اُس وقت آپ کو مکہ میں سیاسی اقتدار حاصل نہ تھا۔ مکہ کے قبائلی پارلیامنٹ دار الندوہ میں مشرک قبائل کو غلبہ حاصل تھا۔
رسول اللہ ﷺنے دار الندوہ پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مکہ میں سیاسی اقتدار یا دار الندوہ پر قبضہ کیے بغیر دعوت کے جو مواقع آپ کو حاصل تھے، اس کو آپ استعمال کرتے رہے۔ مزید یہ کہ اُس زمانے میں مشرکین کی طرف سے آپ کو اقتدار کی پیش کش کی گئی، لیکن آپ نے اس کو قبول نہیں کیا اور فرمایا: ما أطلب الملک علیکم۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ حکومت پر قبضے کے بغیر اگر مجھے دعوتی مواقع حاصل ہیں تو وہی میرے لیے کافی ہیں، مجھے تمھارے اوپر حاکم بننے کی ضرورت نہیں۔