نیا انسان
جس زمانہ میں برطانیہ کی حکومت ساری دنیا میں چھائی ہوئی تھی، اس زمانے کا ایک واقعہ ہے کہ برطانیہ کا بادشاہ بھیس بدل کر اپنی مملکت کو دیکھنے کے لیے نکلا۔ ایک جگہ پہنچ کر وہ برطانی فوج کے ایک افسر کے دفتر میں گیا۔ اس نے انگریز افسر سے پوچھا کہ ٹپس برگ کا راستہ کدھر سے جاتا ہے۔ افسر بگڑ گیا۔ اس نے کہا تم ٹپس برگ کا راستہ کسی سے بھی پوچھ سکتے تھے۔ اس کے لیے تمھیں میرے دفتر میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ نووارد نے کہا کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں کون ہوں۔ اس نے کہا کیا تم کوئی فوجی افسر ہو۔ نووارد نے کہا کہ میں اس سے بھی بڑا ہوں۔ اس نے کہا کیا تم کیپٹن ہو۔ نووارد نے کہا کہ میں اس سے بھی بڑا ہوں۔ اس نے کہا کیا تم کرنل ہو۔ نووارد نے کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ بڑا ہوں۔ اس نے کہا کیا تم جنرل ہو۔ نووارد نے کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ بڑا ہوں۔ اس نے کہا کیا تم فیلڈ مارشل ہو۔ نووارد نے کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ بڑا ہوں۔ اب فوجی افسر بولا: کیا تم بادشاہ ہو۔ نووارد نے کہا کہ ہاں۔ فوجی افسر یہ سن کر کانپ اٹھا۔ وہ فوراً کھڑاہوگیا۔ اس نے اپنی جیب سے ریوالور نکالا اور کہا کہ لو، اس سے مجھے شوٹ کردو۔ میں نے اپنے بادشاہ کی توہین کی ہے۔ اس لیے میری سزا یہی ہے کہ مجھے گولی ماردی جائے۔
بادشاہ نے کہا کہ تم میری فوج کے ایک لائق افسر ہو اس لیے میں تم کو گولی نہیں ماروں گا۔ میں تم کو ایک اور سزا دیتا ہوں وہ سزا یہ ہے کہ آج سے تم ایسا کرو کہ جب بھی تم کسی انسان سے کوئی معاملہ کرو تو یہ سوچ لو کہ تمھارا بادشاہ تمھارے سامنے کھڑا ہے۔فوجی افسر نے اس کو پکڑ لیا۔ اس کے بعد اس کی زندگی بدل گئی۔ وہ آخر عمر تک نہایت محتاط زندگی گزارتا رہا، یہاں تک کہ اسی حا ل میں مر گیا۔
یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر خدا اور انسان کا ہے۔ انسان طرح طرح کی سرکشی کرتاہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ خدا کو اپنے سے دور سمجھتا ہے۔ اگر وہ جان لے کہ خدا عین اس کے قریب موجود ہے۔ وہ اس کو ہر لمحہ دیکھ رہا ہے تو اچانک اس کی سوچ میں ایک انقلاب آجائے۔ وہ اپنے ہر قول اور ہر فعل میں آخری حد تک محتاط روش اختیار کرلے۔