دنیا کی حقیقت
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الدنیا ملعونۃٌ، ملعونٌ ما فیہا إلاّ ذکر اللہ، وما والاہ، وعالماً ومتعلما (ابن ماجہ، کتاب الزّہد؛ الترمذی، کتاب الزہد) یعنی دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا کے اندر ہے، وہ سب ملعون ہے، سواذکراللہ کے اور وہ چیز جو اُس کے قریب ہو، اور عالم اور طالبِ علم۔
دنیا اور ذکر اللہ دونوں ایک دوسرے الگ نہیں ہیں۔ یادِ الٰہی کے لیے دنیا کو پوائنٹ آف ریفرنس بنا لینا، یہی وہ چیز ہے جس کو اِس حدیث میں ذکر اللہ کہاگیا ہے۔ اگر یہ یاد اللہ کے نام کے ساتھ ہو تووہ براہِ راست ذکر ہے۔ اور اگر نام کے بغیر اللہ کو یاد کیا جائے تو وہ بالواسطہ ذکر۔ اِسی طرح، وہ عالم اور وہ طالبِ علم خدا کے نزدیک مطلوب عالم اور طالبِ علم ہیں جو اپنے علم کو ذکر ِ الٰہی کا ذریعہ بنائیں۔
دنیا یا دنیا کی چیزوں کا خالق بھی اللہ ہے۔ اِس لیے دنیا فی نفسہ ملعون نہیں ہوسکتی۔ یہ دراصل دنیا کا استعمال ہے جو اس کو ملعون یا غیر ملعون بناتا ہے۔ جو شخص دنیا کو پاکر خدا کو بھول جائے، اس کے لیے دنیا ملعون کا درجہ رکھتی ہے۔ اور جس شخص کے لیے دنیا کو پانا یادِ الٰہی کا ذریعہ بن جائے، اُس کے لیے دنیا رحمت اور سعادت کی چیز ثابت ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا آزمائش (test) کے لیے بنائی گئی ہے۔ دنیا کی تمام چیزیں آزمائشی پرچے (test papers) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ پرچے اِس لیے ہیں، تاکہ ناکام ہونے والوں اور کامیاب ہونے والوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے۔
جس شخص نے دنیا کی چیزوں سے یادِ خداوندی کی غذا لی وہ اِس آزمائش میں کامیاب ہوا۔ اِس کے برعکس، جس آدمی کے لیے دنیا کی چیزیں خالق سے دوری اور فراموشی کا سبب بن گئیں، وہی وہ انسان ہے جو آزمائش میں ناکام ہوگیا۔ اِس طرح، دنیا بہ اعتبارِ استعمال، کسی کے لیے ذریعۂ لعنت ہے اور کسی کے لیے ذریعۂ رحمت۔