فائنل توجیہہ
اِس دنیا کی ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔ شمسی نظام (solar system) اتنا زیادہ مکمل ہے کہ اس سے بہتر کوئی اور شمسی نظام سوچا نہیں جاسکتا۔ ہماری زمین اپنے بے شمار اجزا کے ساتھ کامل معیار کا آخری نمونہ ہے۔ ہماری دنیا میں جو لائف سپورٹ سسٹم ہے، اُس سے بہتر لائف سپورٹ سسٹم کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اِسی طرح، پہاڑ، دریا، درخت، حیوانات اور انسان، سب اپنے آخری معیاری ماڈل پر ہیں، حتی کہ گھاس کا جو ماڈل ہے، وہ بھی اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔ کوئی آرٹسٹ کبھی گھاس کا اِس سے بہتر ماڈل نہیں بنا سکتا۔یہی معاملہ خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کا ہے۔ یہ تخلیقی نقشہ بھی اپنے آخری کمال کی حد تک معیاری نقشہ ہے، حتی کہ اِس سے بہتر تخلیقی نقشے کا تصور ممکن نہیں۔
انسان کو خدا نے احسنِ تقویم کی صورت میں پیدا کیا، پھر موجودہ زمین پر اس کو عارضی طورپر ٹسٹ کے لیے رکھا اور یہ مقدر کیا کہ موت کے بعد کی ابدی دنیا میں ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق، سزا یا انعام دیا جائے۔ اِسی کا نام تخلیقی نقشہ ہے۔ انسان جیسی مخلوق کے لیے بلا شبہہ یہ اعلیٰ ترین تخلیقی نقشہ ہے۔ اِس سے بہتر تخلیقی نقشے کا تصور یقینی طورپر ممکن نہیں۔
مثلاً انسان اپنے اندر بہت سی خواہشات (desires) رکھتا ہے۔ یہ خواہشات انسان کے دماغ میں ایک حسین تصور کے طورپر بسی ہوئی ہیں۔ ہر عورت اور مرد چاہتے ہیں کہ اُنھیں ایک ایسی دنیا ملے، جہاں ان کی تمام خواہشیں کسی روک ٹوک کے بغیر پوری ہوں۔ فلسفیوں اور مفکروں نے زندگی کے جتنے نقشے بنائے ہیں، اُن میں انسان کی اِن خواہشوں کی تکمیل (fulfilment) ممکن نہیں۔ مثلاً آواگون کا نظریہ اور اِفادی نظریہ، وغیرہ۔ آخرت کے نظریے کی صورت میں جو تخلیقی نقشہ سامنے آتا ہے، اُس میں آخری معیاری درجے میں اِن خواہشوں کی تکمیل کا سامان موجود ہے۔ نظریۂ آخرت کا یہ پہلو اِس بات کا آخری ثبوت ہے کہ وہی زندگی کا حقیقی نظریہ ہے۔ اِس کے سوا جو نظریات ہیں، وہ سب فرضی قیاسات ہیں، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔