آدابِ کلام
مکی دور میں جب قرآن اترنا شروع ہوا تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ اُس زمانے میں ایسا ہوا کہ فرشتہ جبریل، قرآن کا کوئی حصہ لے کر آئے اور انھوں نے اس کو آپ کے سامنے پڑھا۔ اُس وقت آپ نے یہ کیا کہ آپ سنے ہوئے الفاظ کو درمیان میں دہرانے لگے، تاکہ آپ اُس کو بھول نہ جائیں۔قرآن کی سورہ نمبر 75 میں اِس پر یہ ممانعت اتری: لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ۔ إن علینا جمعہ وقرآنہ، فإذا قرأناہ فاتّبع قراٰنہ(القیامۃ: 16-18) یعنی تم اس کے پڑھنے پر اپنی زبان حرکت میں نہ لاؤ، تاکہ تم اُس کو جلدی سیکھ لو۔ ہمارے اوپر ہے، اس کو جمع کرنا اوراس کو سنانا۔ پس جب ہم اس کو سنائیں، تو تم اس کے سنانے کی پیروی کرو۔
قرآن کی اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کا تعلق صرف پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو جبریل اِس بات کو الگ سے پیغمبر اسلام کو بتادیتے۔ قرآن میں یہ بات اس لیے شامل کی گئی، تاکہ اِس کے ذریعے دوسرے لوگوں کو آدابِ کلام کی تعلیم دی جاسکے۔ اِس اعتبار سے، قرآن کی اِس آیت کا تعلق عمومی طورپر آدابِ کلام سے ہے، نہ کہ صرف پیغمبر اسلام کی ذات سے۔
اِس آیت سے کلام کا صحیح طریقہ معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ جب کوئی شخص ایک بات کہے، تو دوسرا آدمی پوری طرح خاموش ہو کر اُس کی بات کو سنے۔ سننے والے کو ہر گز ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بیچ میں بولنے لگے۔
اکثر لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ گفتگو کے دوران بیچ میں بار بار بولتے ہیں۔ یہ طریقہ آداب کلام کے خلاف ہے۔ نیز اُس کا یہ نقصان ہے کہ سننے والا، کہنے والے کی بات کو پوری طرح نہ پکڑے۔ اِس طرح گفتگو کا اصل فائدہ حاصل نہ ہو۔ باہمی گفتگو کا مقصد اِفہام و تفہیم، یا ڈائلاگ اور لرننگ (learning)ہوتا ہے۔ گفتگو کے دوران بولنے سے یہ مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ اِس کا فائدہ نہ سننے والے کو ملتا ہے اور نہ کہنے والے کو۔