جہاد، قتال
جہاد اور قتال دونوں ہم معنٰی الفاظ نہیں۔ جہاد کا مطلب پُر امن جدوجہد ہے، اور قتال کا لفظ جنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم جہاد کا لفظ توسیعی طورپر کبھی جنگ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جہاد بہ معنی قتال کی کچھ لازمی شرطیں ہیں۔ اِن شرطوں کے بغیر کیا ہوا عمل، اسلامی شریعت کے مطابق، جہاد نہیں۔
1 - جہاد بہ معنٰی قتال کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ خارجی حملے کے وقت بہ طور دفاع ہوتا ہے۔ یہ دفاعی جنگ صرف ایک قائم شدہ حکومت کرسکتی ہے، عام لوگوں کو کسی بھی عذر کی بنا پر اِس کا حق نہیں۔ غیر حکومتی افراد یا تنظیموں (NGOs) کے لیے صرف پر امن کوشش ہے، نہ کہ مسلح کارروائی۔
2 - اسلام میں سرّی جنگ (secret war) جائز نہیں۔ اگر کوئی مسلم حکومت کسی کے خلاف دفاعی جنگ کی ضرورت محسوس کرتی ہے تو اس کو اعلان کرنا ہوگا۔ اعلان کے بغیر، دفاعی جنگ جائز نہیں۔
3 - اگر کوئی مسلم گروہ کسی ملک کے اندر رہتا ہے اور حالات کے مطابق، وہ مسلح جنگ کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو اس کو سب سے پہلے اُس ملک سے ہجرت کرنا ہوگا۔ ملک کے اندر رہتے ہوئے کسی قسم کی مسلح کارروائی اسلام میں جائز نہیں۔
4 - ایک جائز جنگ میں بھی صرف مقاتِل (combatant) کو مارا جاسکتا ہے، غیر مقاتِل (non-combatant)کو مارنا جائز نہیں۔
5 - اسلام میں صرف حملہ آور (agressor) کے خلاف جنگ ہے، دشمن کے خلاف جنگ نہیں۔ دشمن کے مقابلے میں صرف پُرامن ڈائلاگ ہے، نہ کہ مسلح کارروائی۔
6 - اسلامی تعلیمات کے مطابق، اسلام میں جنگ کی حیثیت عموم (rule) کی نہیں، اسلام میں جنگ کی حیثیت صرف ایک استثنا(exception) کی ہے۔ اسلام میں کرنے کا اصل کام پُر امن دعوت ہے۔ اگر جنگ کی صورتِ حال پیش آئے، تب بھی ساری کوشش اُس سے اعراض کے لیے کی جائے گی، نہ کہ فوراً لڑائی چھیڑ دینے کی۔اسلام کی تمام تعلیمات، براہِ راست یا بالواسطہ طورپر، امن کے اصول پر مبنی ہیں، نہ کہ جنگ کے اصول پر۔