حقیقت پسندی، معیار پسندی
ایک دانش مند نے داخلی حکمت اور خارجی حکمت کو بتاتے ہوئے کہاہے— دوسروں کے بارے میں جاننا، دانش مندی ہے۔ اور اپنے بارے میں جاننا، ذہنی بیداری:
Knowing others is wisdom; knowing the self is enlightenment.
موجودہ دنیا میں ہر آدمی کے لیے دو قسم کی تیاری درکار ہوتی ہے، اپنے اعتبار سے اور دوسروں کے اعتبار سے۔ یہ دونوں ہی تیاری یکساں طورپر ضروری ہے۔ کسی ایک میں تیار ہونا اور دوسرے میں تیار نہ ہونا، آدمی کے لیے کافی نہیں۔
دوسروں کے بارے میں دانش مندی یہ ہے کہ آدمی دوسروں سے وہی امید کرے جو باعتبار حقیقت ممکن ہے۔اِس معاملے میں ضرورت سے زیادہ امید (over expectation) ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ دوسروں کے بارے میں امید قائم کرتے ہوئے، آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے جذبات کو پوری طرح الگ رکھے اور صرف امرِ واقعہ کی بنیاد پر امید قائم کرے۔
جہاں تک اپنی ذات کا تعلق ہے، اِس معاملے میں آدمی کو چاہیے کہ وہ آخری امکان تک جائے۔ وہ آخری حد تک اپنے آپ کو دریافت کرے، وہ آخری حد تک اپنے آپ کو استعمال کرنے کی کوشش کرے، دوسروں کے معاملے میں حقیقت پسندی (realism)مطلوب ہے، اور اپنے معاملے میں معیار پسندی(idealism)۔
ایک صاحب کو مشورہ دیتے ہوئے میں نے کہا— اپنے گھر کے اندر آپ آیڈیلسٹ (idealist) بنئے، اور گھر سے باہر نکلتے ہی پریکٹکل (practical) بن جائیے۔
اِن دو طرفہ تقاضوں کو نبھانا، ایک مشکل کام ہے۔ اِس دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اِن دو طرفہ تقاضوں کو نبھائیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے معاملے میں حقیقت پسند (realist) ہو اور اپنے معاملے میں معیار پسند(idealist)۔ جس آدمی کے اندر اِس کے برعکس مزاج ہو، وہ اِس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔