شکر ِ خداوندی
مسٹر رجت ملہوترا نے بتایا کہ انھوں نے ٹیلی فون پر مسٹر شہزاد سے بات کی۔ مسٹر شہزاد کی عمر تقریباً چالیس سال ہے۔ وہ میرٹھ کے رہنے والے ہیں۔ وہ الرسالہ مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ اِس وقت اُن کو ایک شدید بیماری لاحق ہے۔ اِس بیماری کی وجہ سے اُن کا نظامِ ہضم بڑی حد تک معطل ہوچکا ہے۔ مسٹرشہزادنے ٹیلی فون پر بتایا کہ کچھ لوگ میرے پاس عیادت کے لیے آئے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ عیادت کا ثواب آپ کو صرف اُس وقت ملے گا، جب کہ آپ مجھ کو دیکھ کر حقیقی معنو ں میں الحمد للہ کہہ سکیں۔آپ جانتے ہیں کہ میرا حال یہ ہے کہ پانی پینا بھی میرے لیے مشکل ہے۔ اگر آدھی روٹی کھالوں تو وہ گھنٹوں ہضم نہیں ہوتی۔ ہضم کا قدرتی نظام اپنا کام نہیں کررہا ہے۔ آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ ہم پانی پی سکتے ہیں، ہم کھانا کھاسکتے ہیں، پانی اور کھانا ہمارے پیٹ کے اندر داخل ہو کر ہضم ہوجاتا ہے۔ یہ بات جو آپ کو حاصل ہے، وہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ اِس کا شکر ادا کرنے کے لیے انسانی زبان میں الفاظ موجود نہیں۔
شہزاد صاحب آج کل صاحبِ فراش ہیں۔ اِس سے پہلے وہ نہایت سرگرمی کے ساتھ دعوت الی اللہ کا کام کرتے رہے ہیں۔ ہفتے میں ایک دن وہ باقاعدہ طورپر الرسالہ مطبوعات کو لوگوں تک پہنچانے میں صرف کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ ایک ہندو ڈاکٹر کے یہاں گئے۔ وہ اُن سے مل کر ان کو ہمارے یہاں کا چھپا ہواانگریزی لٹریچر دینا چاہتے تھے۔ کلینک کے کارکن نے اُن کو منع کردیا۔ اس نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب بہت مصروف ہیں، آپ اُن سے مل نہیں سکتے۔ وہاں کا قاعدہ یہ تھا کہ مریض پہلے وزیٹنگ فیس کے طور پر سوروپئے جمع کرواتا تھا۔ اس کے بعد وہ لائن میں کھڑا ہوکر ڈاکٹر تک پہنچتا تھا۔ شہزاد صاحب نے یہ کیا کہ وزٹنگ فیس جمع کرکے وہ لائن میں کھڑے ہوگئے۔ جب ان کی باری آئی اور وہ ڈاکٹر تک پہنچے تو انھوں نے ڈاکٹر سے کہا کہ مجھے کوئی بیماری نہیں۔ میں صرف آپ کو یہ چند لٹریچر دینا چاہتا تھا۔ یہاں کے قاعدے کے مطابق، چوں کہ میں مریضوں کی لائن میں کھڑے ہوئے بغیر آپ تک نہیں پہنچ سکتاتھا۔ اِس لیے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا۔ یہ سن کر مذکورہ ہندو ڈاکٹر بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے خوشی سے لٹریچر لے لیا اور کہا کہ آئندہ آپ جب بھی چاہیں، پیشگی اپائنٹ مینٹ کے بغیر مجھ سے مل سکتے ہیں۔