سوال وجواب

سوال

میں تدریسی پیشے سے منسلک ہوں اور الحمد للہ دین کی سمجھ بنیادی طورپر رکھتا ہوں۔ میری پریشانی یہ ہے کہ کبھی تو دل میں ولولہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کو دین سے قریب کرنے کی کوشش کروں، لیکن پھر قوم کی بے رخی اور ان کو برائی کے دلدل میں پھنسا ہوادیکھتا ہوں اور ان کی بہانہ بازی دیکھتا ہوں تو پھر ان سے بات تک نہ کرنے اور کوئی کام نہ کرنے کی بات دل میں آجاتی ہے۔ مہربانی فرما کر اپنے مشورے سے مجھے نوازیں کہ میں اپنوں کے درمیان اصلاح کا کام کس طرح کروں۔

چوں کہ میں سرکاری ملازم ہوں اس لیے غیر مسلم اساتذہ سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ کچھ مذہب کے متعلق خیالات کا تبادلہ بھی ہوتا ہے، لیکن میرے پاس کوئی لٹریچر ان حضرات کو اسلام کی معلومات دینے والا نہیں ہے۔ اگر آپ کچھ ارسال کرسکیں تو میں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔ میں منتظر ہوں کہ آپ میری رہ نمائی فرمائیں (غلام فرید، ایوت محل، مہاراشٹر)۔

جواب

دعوت واصلاح کا کام ایک ذمّے داری ہے۔ وہ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں کیا جاتا ہے۔ اہلِ ایمان کے لیے لازمی طور پر ضروریہے کہ وہ پیغمبر کے ذریعے ملے ہوئے خدائی پیغام کو اُس کے بندوں تک پہنچائیں۔ اِس معاملے میں نتیجہ (result) کا پہلو ایک اضافی (relative) پہلو ہے۔ دعوت و اصلاح کے عمل کا مطلوب نتیجہ نکلے یا نہ نکلے، ہر حال میں دعوت و اصلاح کا کام جاری رکھنا ہے، اُس وقت تک جب تک کہ موت نہ آجائے۔

دعوت واصلاح کا کام صرف مدعو کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ وہ خود داعی کے اعتبار سے ہے۔ دعوت واصلاح کے کام میں ہمیشہ مختلف قسم کے تجربات ہوتے ہیں۔ یہ تجربات داعی کی شخصیت کی تعمیر کے لیے انتہائی حد تک اہم ہیں۔ اِن تجربات کے بغیر داعی کے اندر مطلوب شخصیت نہیں بن سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مدعو کی طرف سے مثبت جواب (positive response) نہ ملے، تب بھی دعوتی عمل کا یہ فائدہ بہر حال حاصل ہوتا ہے کہ داعی کی اپنی شخصیت مسلسل طورپر ترقی کا سفر طے کرتی رہتی ہے، آپ قرآن کو اِس پہلو سے پڑھیں تو آپ واضح طورپر اِس حقیقت کو دریافت کرلیں گے۔

سوال

میں نے پہلا خط آپ کی جانب لکھا تھا۔ اس کا جواب مجھے ’الرسالہ‘ میں مل گیا۔ اُمید ہے کہ آپ آگے بھی ہماری رہ نمائی فرمائیں گے۔ حال ہی میں ایک درسگاہ میں ایک اجتماع کا انعقاد ہوا جو ہمارے پاس ہی واقع ہے۔ مجھے اللہ نے وہاں جانے کی توفیق عطا فرمائی۔ وہاں ایک مقرر نے جو مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، آپ کی ایک کتاب کا حوالہ دے کر لوگوں کو بہت سی باتوں سے واقف کرایا۔ میں بہت متاثر ہوا۔ جب بھی کسی سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو اکثر آپ کی کتابوں کو پڑھنے کا مشورہ دیتا رہتا ہوں۔ میری دلی تمنّا ہے کہ دنیا بھر میں امن وامان قائم ہو اور ہمارے علماء آپ کی طرح سوچنے لگیں اور دین کی اصل صورت لوگوں تک پہنچائیں۔ لوگوں میں جو ذہن پیدا ہوا ہے، وہ ہمارے علماء ہی کی دین ہے۔ ان لوگوں کا کوئی قصور نہیں۔ ہمارے دلوں میں علماء کااحترام ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہماری سوچ بھی ویسی ہوجاتی ہے۔

چند دن پہلے میں اپنے ایک دوست سے بات کررہا تھا تو جواب میں وہ بولنے لگے کہ آپ نے بات اچھی کی، لیکن آپ دین کے معاملے میں زیادہ ڈیپ(deep) ہورہے ہیں اور اگر آگے بھی ایسا چلتا رہا تو اللہ ہی آپ کا نگہبان ہے۔ آپ کو ایک رہبر کی ضرورت ہے۔ میں سمجھ گیا کہ رہبر سے ان کی مراد کیا ہے کیوں کہ یہاں پر عام لوگوں کا یہی عقیدہ ہے۔میں بات کو زیادہ بڑھانا نہیں چاہتا ہوں۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ خط کہ ذریعے یا کتاب کے ذریعے میرے اندر ایک زندہ شعور پیدا ہو۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے اور آپ کی تحریروں میں اثر دے اور ہمارے دلوں میں خلوص دے تاکہ ہم جو پڑھیں یا سنیں،وہ ہمارے دلوں میں اتر جائے (شکیل احمدملک، سری نگر، کشمیر)۔

جواب

آپ کے ساتھی کا یہ کہنا کہ آپ دین کے معاملے میں زیادہ ’’ڈیپ‘‘ میں کیوں جارہے ہیں، کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک نہایت خطرناک بھول ہے جس میں موجودہ زمانے کے بیش تر مسلمان مبتلا ہیں۔ آج کل اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی دنیوی ترقی کے معاملے میں تو ’’ڈیپ‘‘ میں جاتے ہیں، لیکن آخرت کے معاملے میں وہ صرف کچھ رسمی اعمال کو کافی سمجھے ہوئے ہیں۔یہ ایک دہرا معیار ہے۔ اِسی دہرا معیار کا دوسرا نام منافقت ہے، اورمنافقت کسی آدمی کو خدا کے غضب کا مستحق بناتی ہے، نہ کہ خدا کی رحمت کا مستحق۔

اسلامی نقطۂ نظر سے صحیح بات یہ ہے کہ آدمی اپنی دنیا کے معاملے میں سادگی پر قانع ہو۔ وہ صرف ضروری حد تک اپنے آپ کو دنیا کی چیزوں میں مشغول کرے۔ اِس کے بعد جہاں تک دین کا اور آخرت کا معاملہ ہے، وہ اُس میں پوری طرح ڈیپ میں جائے۔ وہ زیادہ سے زیادہ گہرائی کے ساتھ دین اور آخرت کے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اِس کے بغیر کسی کو آخرت کی جنت ملنے والی نہیں۔

جنت کی قیمت کچھ رسمی اعمال نہیں ہیں۔ جنت میں صرف وہ انسان داخل کیا جائے گا جس نے اپنا تزکیہ کیا ہو۔ تزکیہ کوئی پُراسرار چیز نہیں۔ تزکیہ ذہنی عمل کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ آدمی جب خدا کی کتاب کو تدبر کے ساتھ پڑھتا ہے، وہ جب اپنا محاسبہ کرتا ہے، وہ خشوع والی عبادت انجام دیتاہے، وہ خدا رخی زندگی (God-oriented life) اختیار کرتا ہے تو اس کے اندر ایک مزکّٰی شخصیت (purified personlity) بنتی ہے۔ یہی مزکّیٰ انسان وہ انسان ہے جس کو آخرت میں جنت کے باغوں میں داخل کیا جائے گا۔ امانی یا خوش فہمی (wishful-thinking) کے ذریعے کسی کو جنت ملنے والی نہیں۔

سوال

انسان نے اپنی تاریخ کے روزِ اول سے ہی رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لیے مذہب، خدا اور دیوی دیوتاؤں کے نام پر معصوم جانوروں کا بے رحمانہ قتل (قربانی) کارِ ثواب تصور کرلیا تھا جس کے باعث ان بے زبان و بے قصور حیوانات کا بے دریغ قتل (قربانی) ایک عوامی روایت بن گئی تھی۔ ان حالا ت میں خدا کی اس بے زبان مخلوق کے اس بے رحمانہ قتل کے خلاف بھگوان مہابیر اورراج کمار سدھارتھ (گوتم بدھ) نے ایک درد بھری آواز اٹھائی۔ انھوں نے انسان کی روح کو یہ بھی احساس کرایا تھا کہ خدا کی اس غیر انسانی مخلوق میں بھی انسان کی طرح ہی روح وجان اور جذبۂ احساس موجود ہے اور ان کے قتل کے وقت انھیں بھی انسان کی طرح تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ مہابیر سوامی نے تو اہنسا کو ہی سب سے مقدس روحانیت قرار دیا ہے۔ مہارشی دیا نند سرسوتی نے ہندو دھرم کے گرنتھوں میں موجود بلی پرتھا (رسم قربانی) کو وید،مذہب اور روحانیت کے خلاف اور قابل ترک ثابت کیا ہے۔ اس سب کے نتیجے میں بلی پرتھا (رسم قربانی) آج ہندو فرقوں میں اپنے آخر پر ہے۔ لیکن مسلم سماج میں آج بھی جانور کی قربانی کو مذہبی فرض مانا جاتا ہے۔ خصوصاً عید الاضحی کے موقع پر عید قرباں منائی جاتی ہے۔ اس میں بے زبان ومعصوم جانوروں کو بڑی بے دردی وبے رحمی سے قتل کیا جاتا ہے۔براہِ کرم، اس معاملے کی وضاحت فرمائیں (رنگی لال آریہ (ایڈوکیٹ)، سہارن پور)۔

جواب

آپ نے ’’قتلِ حیوان‘‘ کے حوالے سے گوتم بدھ اور مہابیر کی جس تعلیم کا ذکر کیا ہے اور اُس کے مقابلے میں اسلام پر جو تبصرہ فرمایا ہے، وہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ دراصل غیر سائنسی دور اور سائنسی دور کے درمیان فرق کا معاملہ ہے۔ سائنسی دور سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ قتل کا لفظ تو صرف حیوان اور انسان سے تعلق رکھتا ہے، اور جہاں تک دوسری چیزوں کا تعلق ہے، اُن پر قتل کا لفظ چسپاں نہیں ہوتا۔ مگر موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات نے بتایا ہے کہ حیوان اور انسان کے علاوہ، دوسری چیز وں میں بھی زندگی پائی جاتی ہے۔ مثلاً پانی اور دودھ اور سبزی اور پھل، وغیرہ۔ اِس لحاظ سے دیکھئے تو موجودہ سائنسی زمانے میں گوتم بدھ اور مہابیر کی تعلیمات غیر متعلق (irrelevant) ہوچکی ہیں۔ آج اگر گوتم بدھ اور مہابیر زندہ ہوتے اور وہ خوردبین (microscope) کے ذریعے پانی اور دودھ اور سبزی اور پھل کو دیکھتے تو بلاشبہہ وہ اعلان کردیتے کہ ہم غلطی پر تھے۔ سائنسی تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ وہی بات درست ہے جو بہت پہلے اسلام میں بتائی گئی تھی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom