حفاظت ِ خداوندی
فتحِ مکہ (8 ہجری) سے پہلے مدینہ کے حالات اچھے نہ تھے۔ چناں چہ رات کے وقت صحابہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہرہ داری کرتے تھے۔ ایک رات کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبہ سے اپنا سر باہر نکالا اور کہا: انصرفوا أیہاالناس، فقد عصمنی اللہ(الترمذی، کتاب التفسیر) یعنی اے لوگو، واپس جاؤ۔ اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات قرآن کی ایک آیت کی بنیاد پر فرمائی تھی جو غالباً اُسی رات کو اتری تھی۔ وہ آیت یہ ہے: یا أیہا الرسول بلّغ ما أنزل إلیک من ربّک، وإن لم تفعل فما بلّغتَ رسالتہ، واللہ یعصمک من الناس (المائدۃ: 67) یعنی اے پیغمبر، جو کچھ تمھارے اوپر تمھارے رب کی طرف سے اترا ہے، تم اُس کو پہنچاؤ۔ اوراگر تم نے ایسا نہ کیا، تو تم نے اللہ کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ لوگوں سے تمھاری حفاظت کرے گا۔
قرآن کی اِس آیت کے مطابق، ’عصمت من الناس‘ کا راز ’تبلیغ ما انزل اللہ‘ میں چھپا ہوا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ یہ وعدہ صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شخصی طورپر نہ تھا، یہ آپ کی امت کے ہر اُس فرد یا اُس گروہ کے بارے میں ہے جو خالص پیغمبرانہ نمونے کے مطابق، دعوت اور تبلیغ کا کام کرے۔ سچے داعیوں کے لیے یہ ایک ابدی وعدہ ہے، وہ کسی خاص زمانے تک محدود نہیں۔
دعوتِ حق کے کام کو قرآن میں اللہ تعالیٰ کی نصرت بتایا گیاہے (الصف: 14) اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جو یہ کام کرے گا، اُس کو ضرور خدا کی مددحاصل ہوگی (محمد:7)۔ یہ امتِ محمدی کے لیے ابدی طور پر ایک رہ نما ہدایت ہے۔ افرادِ امت کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی، مسائلِ دنیا کی بنیاد پر نہ کریں، بلکہ دعوت الی اللہ کی بنیاد پر کریں۔ دعوت کی ذمے داری ادا کرنے کے بعد ایسے حالات پیداہوں گے کہ اُن کے دنیوی مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔ اِس کے برعکس، اگر انھوں نے دنیوی مسائل کو اپنے عمل کا نشانہ بنایا، تو دونوں میں سے کوئی بھی چیز اُن کو ملنے والی نہیں۔