پیغمبر کا طریقہ
انڈیا کے ایک شہر میں ہندوؤں کا مذہبی جلوس نکلا۔ اپنے رواج کے مطابق، وہ ایک دوسرے پر رنگ (گُلال) ڈال رہے تھے۔ راستے میں ایک مسجد پڑی۔ چناں چہ مسجدکی بیرونی دیوار پر بھی گلال کے چھیٹے پڑ گئے۔ وہاں کچھ مسلم نوجوان تھے۔ وہ اِس پر غصہ ہوگئے۔ انھوں نے جلوس نکالنے والوں پر اعتراض کیا، پھر دونوں کے درمیان اشتعال انگیز تکرار (heated exchange) ہوئی۔ اس کے بعد لڑائی شروع ہوگئی۔ آخر میں فرقہ وارنہ فساد بھڑک اٹھا۔ اِس فساد میں اُس مقام کے مسلمانوں کو زبردست جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
اِس کے بعد جگہ جگہ مسلمانوں کے جلسے ہوئے۔ مقرر ین کی بڑی تعداد مسجدوں اور مدرسوں سے نکل کر اسٹیج پر آگئی۔ ان کی پُر جوش تقریروں کا خلاصہ صرف ایک تھا—مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے۔ انتظامیہ مسلمانوں کے اوپر زیادتی کررہی ہے۔ مسلمانوں کو محاصرہ(seige) کی حالت میں پہنچا دیا گیا ہے، وغیرہ۔
اب دوسری مثال لیجیے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مدینہ کی مسجد کے اندر ایک مشر ک بدو داخل ہوا۔ اُس نے نجاست کے ذریعے مسجد کو گندا کردیا۔ اِس پر کچھ صحابہ غصہ ہوئے۔ لیکن پیغمبر اسلام نے صحابہ سے کہا کہ غصہ نہ کرو، بلکہ پانی لے کر اُس مقام پر بہادو۔ وہ جگہ پاک ہوجائے گی۔ اِس پیغمبرانہ سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُس مشرک بدو نے اسلام قبول کرلیا (صحیح البخاری)
مذکورہ مسلمانوں کا طریقہ جاہلیت کا طریقہ ہے۔ اور دوسرا طریقہ پیغمبرانہ طریقہ۔ موجودہ زمانے کے مسلمان جاہلیت کے طریقوں کی وجہ سے مختلف قسم کی مصیبتوں کا شکار ہیں۔ اِس کا حل صرف یہ ہے کہ مسلمان جاہلیت کے طریقے کوچھوڑیں، اور پیغمبر کے نمونے کے مطابق، صحیح دینی طریقہ اختیار کریں۔ اِس معاملے میں اصل کام اپنی غلطی کی اصلاح کرنا ہے، نہ کہ فریقِ ثانی کے خلاف چیخ وپکارکرنا۔