مسرت اور قناعت

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ صرف خدا کی یاد سے انسان کو اطمنانِ قلب حاصل ہوتا ہے (الرعد: 28)۔ حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہم لا عیش إلا عیش الآخرۃ (صحیح البخاری، کتاب الرّقاق) یعنی پُر مسرّت زندگی صرف آخرت میں حاصل ہوسکتی ہے۔

قرآن اور حدیث کے اِن دونوں حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسرت (happiness) اور اطمنان، دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں، موجودہ دنیا میں کسی کو اطمنانِ قلب تو حاصل ہوسکتا ہے، لیکن مادّی معنوں میں پر مسرت زندگی کا حصول یہاں ممکن نہیں۔ مسرت کا تعلق، مادی راحت کی چیزوں سے ہے۔ اِس کے مقابلے میں، اطمنان ایک ذہنی حالت کانام ہے۔ موجودہ امتحان کی دنیامیں کسی کو وہ تمام مادی سازوسامان نہیں مل سکتا جس کو پر مسرت زندگی کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے، البتہ ذہنی اعتبار سے اُس داخلی کیفیت کا حصول ممکن ہے جس کو اطمنان کہاگیاہے۔

مادّی سازوسامان کا بقدر شوق ملنا، اِس لیے ممکن نہیں کہ موجودہ دنیا اِس مقصد کے لیے نہیں بنائی گئی ہے۔ موجودہ دنیا امتحان اور آزمائش کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں وہی سامان اکھٹا کیے گئے ہیں جو امتحان کی مصلحت کے اعتبار سے ضروری ہیں۔ اِس لیے موجودہ دنیا میں پر مسرت زندگی کی تعمیر ایک ایسا کام ہے جس کی گنجائش خالق کے تخلیقی پلان میں نہیں، اور جو چیز خالق کے تخلیقی پلان میں نہ ہو، اُس کا حصول موجودہ دنیا میں کبھی ممکن نہیں ہوسکتا۔

اطمنانِ قلب کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ اطمنانِ قلب کے حصول کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ آدمی ملی ہوئی صورتِ حال پر راضی ہوجائے۔ اِسی کا نام قناعت(content) ہے۔ اگر آدمی کے اندر قناعت کا مزاج پیدا ہوجائے، تو کسی بھی حال میں، وہ کامل اعتدال کے ساـتھ زندگی گزار سکتا ہے۔ اِسی لیے حدیث میں مومن کی مثال مسافر سے دی گئی ہے (کُن فی الدنیا کأنّک غریب، أوعابرُ سبیل۔صحیح البخاری، کتاب الرقاق)۔

مسافر اپنے آپ کو سفر کی حالت میں سمجھتا ہے، اِس لیے وہ سفر کے وقت، یا سواری میں بیٹھ کر اطمنان کے ساتھ اپنا سفر طے کرتا ہے۔ کیوں کہ اس کو پیشگی طورپر یہ معلوم رہتا ہے کہ سفر میں اس کو گھر جیسا آرام نہیں مل سکتا۔ مسافر آدمی جب ایک سواری میں بیٹھاہو، تو وہ یہ امید نہیں رکھتا کہ اس کو گھر والی سہولتیں حاصل ہوجائیں گی۔ یہی سوچ آدمی کو سفر میں مطمئن رکھتی ہے۔ اِس کے برعکس، اگر وہ سواری کے اندر گھر والی سہولتوں کی امید رکھے، تو وہ پورے سفر میں پریشانیوں سے دوچار رہے گا۔ اِسی حقیقت پسندانہ سوچ کا نام قناعت ہے، اور قناعت کی سوچ ہی اِس دنیا میں اطمنان کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔

موجودہ زمانے میں ایک مسئلہ بہت زیادہ عام ہے۔ اِس مسئلے کو اسٹریس(stress) یا ٹنشن (tension) کہاجاتاہے۔ دنیا بھرمیں ایسے ادارے کھُلے ہوئے ہیں جو ڈی اسٹریسنگ (de-stressing) کے نام پر بڑے بڑے بزنس چلا رہے ہیں، مگر ڈی اسٹریسنگ کا یہ پورا کام صرف مسئلہ (problem) کے نام پر تجارت کرنا ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں مسئلے کوحل کرنا۔

ڈی اسٹریسنگ کا واحد ممکن ذریعہ قناعت(content) ہے۔ قناعت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی صورتِ موجودہ پر دل سے راضی ہوجائے۔ اور صورتِ موجودہ پر دل سے راضی ہوجانا ہی آدمی کو اِس دنیا میں اطمنان اور سکون کی زندگی عطا کرسکتا ہے۔ اِس کے سوا، اِس دنیا میں اطمنان اور سکون کے حاصل کرنے کا اورکوئی دوسرا ذریعہ نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom