مسئلے کا یقینی حل
حیدرآباد کے ایک مسلم تاجر نے بتایا کہ ایک صاحب سے ان کی پارٹنر شپ تھی۔کچھ عرصہ بعد دونوں کے درمیان شکایتیں پیدا ہوئیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ یہ پارٹنر شپ اب چل نہیں سکتی۔ مذکورہ مسلم تاجر نے اپنے پارٹنر سے کہا کہ میری رائے ہے کہ اب یہ پارٹنر شپ ختم کردی جائے۔ آپ الگ اپنا کام کریں اور میں الگ اپنا کام کروں۔پارٹنر نے پوچھا کہ اُس کا طریقہ کیا ہوگا۔ مسلم تاجر نے کہا کہ اِس کا طریقہ بہت آسان ہے۔ اِس معاملے کا پورا اختیار میں آپ کو دیتا ہوں۔ میری طرف سے کوئی شرط نہیں ہے۔ آپ جس طرح چاہیں، کاروبار کو دونوں کے درمیان تقسیم کردیں۔ جو چاہیں آپ لے لیں، اور جو چاہیں مجھ کو دے دیں۔پارٹنر نے کہا کہ میں فوری طورپر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ مجھ کو د و دن سوچنے کا موقع دیجیے۔ اس کے بعد میں آپ کو اپنی رائے بتاؤں گا۔ دو دن کے بعد پارٹنر نے مذکورہ تاجر سے ملاقات کی۔ اُس نے کہا کہ غور کرنے کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ سے اچھا کوئی اور شریکِ تجارت مجھے نہیں مل سکتا۔ اِس لیے میں اپنے اختلاف کو یک طرفہ طورپر ختم کرتاہوں۔ میں آپ کو پورا حق دیتا ہوں کہ آپ جس طرح چاہیں، کاروبار کو چلائیں۔ ہماری اور آپ کی پارٹنر شپ اِسی طرح باقی رہے گی اور جہاں تک اختیار کا تعلق ہے، آپ کو ہر قسم کے فیصلے کا اختیار حاصل رہے گا۔
مذکورہ مسلم تاجر ماہ نامہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اِس واقعے کو کئی سال ہوچکے ہیں اور ہماری پارٹنر شپ نہایت کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے۔ ہم دونوں کے درمیان نہ کوئی شکایت ہے اور نہ کوئی بد گمانی۔ اِس فیصلے کے بعد کاروبار میں کئی گنا زیادہ ترقی ہوئی ہے اور دونوں پارٹنر پہلے سے زیادہ خوش ہیں— نزاعی معاملے کو ختم کرنے کا یہی سب سے اچھا طریقہ ہے۔ نزاع کے وقت جب ایک شخص یک طرفہ طورپر پیچھے ہٹ جائے تو وہ فریقِ ثانی کے اندر معقولیت کو جگا دیتا ہے۔ وہ فریقِ ثانی کے اندر حقیقت پسندی کا مزاج پیدا کردیتا ہے۔ اور جب طرفین کے درمیان معقولیت اور حقیقت پسندی کی فضا قائم ہوجائے تومسئلہ اِس طرح ختم ہوجاتا ہے، جیسے کہ اُس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔