جنّتی شخصیت
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یدخل الجنّۃ أقوامٌ أفئدتہم مثل أفئدۃِ الطّیر(صحیح مسلم، کتاب الجنۃ؛ مسند احمد، جلد2، صفحہ331) یعنی جنت میں ایسے لوگ جائیں گے جن کے دل چڑیوں کے دل کی مانند ہوں۔
چڑیا ایک حیوان ہے، مگر چڑیا کے اندر ایک ایسی استثنائی صفت ہوتی ہے جو کسی دوسرے حیوان میں نہیں، وہ یہ کہ چڑیا نفرت اور انتقام (revenge)کے جذبات سے خالی ہوتی ہے۔ تمام دوسرے جانور دفاعی طورپر حملہ کرنے کا مزاج رکھتے ہیں، لیکن چڑیا اِس مزاج سے مکمل طورپر خالی ہوتی ہے۔ آپ چڑیا کو دیکھئے تو وہ اپنی شکل ہی سے معصومیت کا پیکر دکھائی دے گی۔ اِس لیے کبوتر (pigeon) کو امن کی علامت (symbol of peace) قرار دیا گیا ہے۔
حدیث کے مطابق، یہی جنّتی صفت اُس انسان سے مطلوب ہے جو جنت کا طالب ہو۔ جنتی انسان وہ ہے جو ہر قسم کے منفی جذبات سے مکمل طورپر خالی ہو، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ چڑیا کے اندر یہ مثبت صفت جبلّت (instinct) کے طورپر ہوتی ہے اور جنتی انسان کے اندر یہ مثبت صفت آزادانہ شعور کے تحت۔
جنّتی انسان وہ ہے جو اپنی تربیت کرکے اپنے آپ کو ایسا بنائے کہ اس کا دل نفرت اور انتقام جیسی چیزوں سے مکمل طورپر خالی ہوجائے، جو غصے کو پی جانے والا ہو، جو منفی ردّ عمل کا مزاج نہ رکھتا ہو، جو نفرت کے باوجود محبت کرنے والا انسان ہو، جو کسی امید کے بغیر لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے، جو لوگوں کے درمیان اِس طرح رہے، جیسے کہ سب لوگ اُس کے بھائی اور بہن ہیں، جو شیطان سے بھاگے اور فرشتوں کو اپنا ہم نشین بنائے، جو شکایتوں کو صبر کے خانے میں ڈال دے، جو دوسروں کا حق ادا کرے اور اپنا حق خدا سے مانگے— یہی وہ اعلیٰ صفات ہیں جو کسی انسان کو جنت میں داخلے کا مستحق بنائیں گی۔