دعوت کے عمومی مواقع

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو 610 ء میں نبوت عطا ہوئی۔ اُس وقت آپ مکہ کے قریب حرا پہاڑ کے ایک غار میں تھے۔ پہلی وحی کے بعد آپ پر جو دوسری وحی اتری، وہ قرآن کی سورہ نمبر 74 کی ابتدائی آیتیں تھیں۔ اِن آیتوں میں آپ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: یا أیہا المدثّر، قُم فأنذر، وربّک فکبّر، وثیابک فطہّر، والرُّجزَ فاہجر(المدثر: 1-5)یعنی اے اوڑھ کر لیٹنے والے، اٹھ اور لوگوں کو آگاہ کر اور اپنے رب کی بڑائی بول۔ اور اپنے کپڑے کو پاک رکھ۔ اور گندگی کو چھوڑ دے۔

اِن آیتوں میں اخلاق کے آداب نہیں بتائے گئے ہیں، بلکہ دعوت کے آداب بتائے گئے ہیں۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ اٹھو اور لوگوں کو توحید کی دعوت دو، لوگوں کے سامنے خدا کی بڑائی بیان کرو، لوگوں کی برائیوں سے اعراض کرتے ہوئے تمام مواقعِ دعوت کواستعمال کرو۔

دعوت کے مقصد کے لیے داعی کو لوگوں کے درمیان جانا پڑتا ہے۔ قدیم مکہ میں کعبہ وہ جگہ تھی، جہاں لوگ اکھٹا ہوتے تھے۔ اِسی مقصد کے لیے وہاں ہر قبیلے کے بتوں کو رکھ دیاگیا تھا۔ اُس وقت کعبہ کے دو پہلو تھے۔ ایک یہ کہ وہاں تمام عرب قبائل کے بت رکھے ہوئے تھے، اور دوسرا یہ کہ اِنھیں بتوں کی وجہ سے وہاں لوگوں کا اجتماع ہوا کرتا تھا۔ ایسی حالت میں رسول اللہ کو یہ حکمت بتائی گئی کہ بتوں کی موجودگی کے مسئلے کو نظر انداز کرو اور وہاں کے اجتماع کو دعوت کے لیے استعمال کرو۔ اِس حکمت کو ایک لفظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے— مسائل کو نظر انداز کرو اور دعوت کے مواقع کو استعمال کرو:

Ignore the problems and avail the opportunities.

یہ حکمت صرف قدیم مکی دور کے لیے نہ تھی، بلکہ وہ آج کے زمانے میں بھی پوری طرح مطلوب ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ دعوت کے لیے انسانوں کا اجتماع (gathering) درکار ہے۔ یہ اجتماع صرف دعوت کے لیے نہیں ہوسکتا، وہ لوگوں کے اپنے مقاصد کے لیے ہوگا۔ جیسا کہ کعبہ میں بتوں کی پرستش کے لیے ہوتا تھا۔ ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ اجتماع اور مقصد ِ اجتماع، دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے۔ داعی کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ اکھٹا ہونے والے لوگ بطور خود کس مقصد کے لیے اکھٹا ہوئے ہیں۔ اُس کو صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ وہاں کچھ لوگ اکھٹا ہیں اور یہ اکھٹا ہونے والے لوگ اُسی مخصوص مقام پر ملیں گے، نہ کہ کسی دوسرے مقام پر۔

قدیم مکہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم یہ کرتے تھے کہ وہ تقریباً روزانہ کعبہ میں جاتے اور وہاں اکھٹا ہونے والے لوگوں کو قرآن کی آیتیں سنا کراُنھیں دعوت کا پیغام دیتے۔ اِس سنتِ نبوی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جمع ہونے والے لوگ اگر بالفرض رُجز (گندگی) کے لیے جمع ہوئے ہوں، تب بھی داعی کو چاہیے کہ وہ رجز کے پہلو کو نظر انداز کرے اور مقامِ اجتماع کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں دعوہ ورک کرے۔ داعی کا فارمولا یہ ہونا چاہیے:

Save yourself, and do Dawah work

اجتماع ہمیشہ تاریخی روایات کے تحت ہوتا ہے۔ کچھ چیزیں ہمیشہ لمبی روایت کے نتیجے میں موضوعِ اجتماع بن جاتی ہیں۔ اِس لیے لوگ اِن روایتی عنوانات کے تحت اکھٹا ہوتے ہیں۔ مثلاً نکاح، ولیمہ، خاندانی تقریبات، اداروں کے سالانہ جلسے، تعزیتی اور تہنیتی تقریبات، مشہور شخصیات کے نام پر اجتماعات، جماعتوں اور پارٹیوں کے فنکشن، مختلف قسم کے تہوار اور جشن، میلہ اور عُرس، وغیرہ۔اِس قسم کے اجتماعات مختلف مقاصد کے تحت کیے جاتے ہیں، مگر اِس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہاں کثیر تعداد میں عورت اور مرد اکھٹا ہوتے ہیں۔ گویا کہ مقصد ِ اجتماع خواہ کچھ بھی ہو، لیکن ہر اجتماع داعی کو ایک قابلِ خطاب مجمع (audience) فراہم کرتا ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ اِس معاملے میں اعراض کے اصول کو اختیار کرے، یعنی وہ غیر مطلوب پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے، صرف مطلوب دعوتی پہلو کو دیکھے اور اِن مواقع میں شریک ہو کر دعوتی مقصد کے لیے اس کو بھر پور طور پر استعمال کرے۔

مشہور قول ہے: خذ ما صَفا وَ دَع ما کدِر (پسندیدہ چیز کو لے لو اور ناپسندیدہ چیزکو چھوڑ دو)۔ یہ قول مذکورہ دعوتی حکمت کوبتاتا ہے، وہ یہ کہ لوگوں کے جمع ہونے کے مقام پر اگر ناپسندیدگی کے کچھ اسباب ہوں تو اُن کو نظر انداز کرو اور اس کے پسندیدہ پہلو، یعنی دعوتی موقع کو اصلاح و تبلیغ کے لیے استعمال کرو۔ یہ حکمت، دعوت کی توسیع واشاعت کے لیے بے حد کار آمد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس حکمت کو اختیار کیے بغیر دعوتِ حق کی عمومی توسیع کا کام انجام دینا ممکن نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom