قرآن سے رہ نمائی
ایک مسلم خطیب نے پُر جوش طورپر کہا کہ قرآن، سارا کا سارا، نعتِ نبوی ہے۔ اِس طرح ہر ایک اپنے ذہن کے مطابق، قرآن کے بارے میں کلام کررہا ہے۔ قرآن کے بارے میں لوگوں کے خیالات بڑے عجیب ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمیں کسی تفسیر کی ضرورت نہیں، بقدر ضرورت عربی زبان جاننا، قرآن کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے، ہمیں حدیث سے رہ نمائی لینے کی ضرورت نہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ قرآن فہمی کا اصل راز یہ ہے کہ اُس کے نظم (order) کو سمجھا جائے۔ آیتوں اور سورتوں کے درمیان نظم کو جاننا ہی قرآن فہمی کی سب سے بڑی کلید ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ جاہلی دور کے عرب شعرا کے کلام کا گہرا مطالعہ کیے بغیر کوئی شخص قرآن کو نہیں سمجھ سکتا۔ کسی کاکہنا ہے کہ قرآن اتنی زیادہ با برکت کتاب ہے کہ اس کا ایک نسخہ گھر میں رکھنا ہی اس کی سعادتوں میں حصے دار بننے کے لیے کافی ہے۔ ایک ہندو اسکالر نے کہا کہ میں جب قرآن کو پڑھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں گیتا کو پڑھ رہا ہوں، اور جب گیتا کو پڑھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں قرآن کو پڑھ رہا ہوں۔ ایک مسیحی اسکالر نے کہا کہ قرآن تو عیسیٰ مسیح کی عظمت بتانے کے لیے اترا تھا۔ آپ دیکھئے، قرآن میں محمد اور احمد کا لفظ صرف 5بار آیا ہے، اور عیسی مسیح کے الفاظ 36 بار آئے ہیں، وغیرہ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اِن تمام قسم کے لوگوں میں ایک صفت مشترک طورپر پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ اگر اُن سے پوچھا جائے کہ آپ کا نقطہ نظر قرآن کی کس آیت سے معلوم ہوتاہے، تو اِن میں سے کوئی بھی اپنے نقطہ نظر کی تائید میں قرآن کی کوئی آیت بتانے سے قاصر رہتا ہے۔ اِن میں سے ہر ایک، اپنے نظریے کو نہایت جوش کے ساتھ بیان کرے گا، لیکن جب اُس سے پوچھا جائے کہ اپنے نظریے کی تائید میں قرآن کا حوالہ بتاؤ، تو وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرے گا، لیکن قرآن کی کوئی آیت اپنے نظریے کی تائید میں پیش نہ کرسکے گا— یہ سب غیر سنجیدگی کی باتیں ہیں اور جو لوگ غیر سنجیدگی میں مبتلا ہوں، وہ کبھی قرآن کو سمجھ نہیں سکتے۔