معرفت اور وحدتِ وجود
معرفت اِس دنیا کی سب سے بڑی یافت ہے۔ مگر میرا احساس ہے کہ پوری تاریخ میں معرفت کے بارے میں لوگوں کو ایک شدید مغالطہ ہوا ہے۔ انسان کو جب اعلیٰ معرفت حاصل ہوتی ہے، تو یہ اُس کے لیے ایک ناقابلِ بیان تجربہ ہوتا ہے۔ انسانی زبان میں اس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ اِس معرفت کا ایک پہلو یہ ہے کہ کسی انسان کو اس کا تجربہ ہوتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ خدا کے اتنا قریب آگیا ہے جیسے کہ اس کی ہستی خدا کی ہستی میں شامل ہوگئی ہے۔
تاہم یہ تمام تر ایک نفسیاتی تجربہ ہوتا ہے۔ لوگوں نے شدید غلط فہمی کی بنا پر اِس تجربہ کو وجودی قربت (physical nearness)، یا وجودی اتحاد (physical emergence) کے معنٰی میں لے لیا۔ اِسی سے وحدتِ وجود (monism) کا نظریہ پیداہوا۔ نفسیاتی قربت کی حد تک یہ حقیقتِ اعلیٰ کے ادراک کی بات تھی، لیکن وحدتِ وجود کے نظریے کی صورت میں وہ سرتاپا ایک باطل چیز بن گئی۔ اِس مشکل کو حل کرنے کے لیے شیخ احمد سرہندی نے وحدت ِ شہود کا نظریہ ایجاد کیا۔ اِسی طرح ابنِ عربی نے کہا:
العبدُ عبدٌ، وإن ترقّٰی والربُّ ربٌّ، وإن تنزّل
مگر میرے نزدیک، یہ دونوں باتیں صرف کنفیوژن (confusion) کا کیس ہیں، وہ اصل معاملے کی حقیقی توضیح نہیں۔ حقیقت صرف یہ ہے کہ خدا نے اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان کی فطرت میں ربانی شعور پیوست کردیا ہے۔ وہ انسان کے لاشعور میں مسلسل موجود رہتاہے۔ اِسی لا شعور کو شعور میں لانے کا نام معرفت ہے۔ یہ صرف ایک دریافت ہے، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان کسی بھی قسم کی کوئی مماثلت نہیں۔ معرفت کا معاملہ تمام تر دریافت کا معاملہ ہے۔ معرفت ایک خارجی حقیقت کی شعوری دریافت ہے۔ تاہم یہ دریافت سائنسی دریافت کی طرح محض ایک ٹکنکل دریافت نہیں۔ یہ دریافت آدمی کو حقیقت کے سمندر میں غرق کردیتی ہے۔ اِسی نفسیاتی معاملے کی غلط توجیہہ کے نتیجے میں وحدتِ وجود (monism) یا ادوئت واد کا نظریہ پیدا ہوا۔