سیاسی کنڈیشننگ میں  جینا

انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں  مسلمانوں کے اندر بہت سی تحریکیں اٹھیں۔ ان تحریکوں کے ٹائٹل الگ الگ تھے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے سب کا نشانہ ایک تھا— مسلمانوں کی سیاسی عظمت کو دوبارہ زندہ کرنا۔ ان میں  سے کسی تحریک کا ٹائٹل حکومت الہیہ تھا اور کسی کا اقامت دین، کسی کا ٹائٹل امامت کبریٰ تھا اور کسی کا ٹائٹل خلافت اسلامیہ، کسی کا ٹائٹل اسلامی نظام تھا اور کسی کا ٹائٹل اسلامی عدل، کسی کا ٹائٹل تہذیب اسلامی کا احیا تھا اور کسی کا ٹائٹل امت کی نشاۃ ثانیہ، کسی کا ٹائٹل شریعت کا نفاذ تھا اور کسی کا ٹائٹل خلافت علیٰ منہاج النبوۃ، وغیرہ۔ لیکن اگر ان کو عملی سرگرمیوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہر ایک دین کے نام پر سیاسی سرگرمیوں میں  مبتلا نظر آئے گا۔ اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں  مسلمانوں کو لمبے عرصے تک سیاسی عظمت حاصل ہوئی۔ حالات نے ان کو موقع دیا کہ وہ زمین کے بڑے حصے میں  اپنا ایمپائر قائم کرلیں۔ اس کے بعد جب جدید دور آیا تو دوبارہ حالات کے تقاضے کے تحت ان کی سلطنتیں ٹوٹ گئیں، اور دھیرے دھیرے ہر جگہ جمہوری سلطنتیں قائم ہوگئیں۔

یہ سیاسی واقعہ جو پیش آیا، وہ قرآن میں  بیان کردہ اس قانون کے تحت ہوا :وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ َ (3:140)۔یعنی اور ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن مسلم رہنماؤں نے شعوری یا غیر شعور ی طور پر سیاسی عظمت کو اپنا قومی حق سمجھ لیا۔ وہ اپنی سیاسی عظمت کو واپس لانے کے لیے کوششیں کرنے لگے، اور غلط طور پر ان کوششوں کو جہاد کا نام دے دیا۔ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوری مسلم قوم کے لیے یہ معاملہ سیاسی کنڈیشننگ (political conditioning) کا معاملہ بن گیا ہے۔ اب پولیٹکل پیٹرن کے سوا کوششوں کا کوئی دوسرا پیٹرن ان کو درست پیٹرن نظر نہیں آتا۔ ان کو صرف ایک بات معلوم ہے— جس قوم کو اپنا حریف سمجھیں، اس پر بم مارنا، اور جب اس غلط پلاننگ کا الٹا نتیجہ نکلے تو اپنے آپ کو مظلوم بتا کر ظلم کی شکایت کرنا۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom