قیام لیل

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامِ لیل کا حکم دیتے ہوئے قرآن میں  یہ آیات آئی ہیں :وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا۔ إِنَّا سَنُلْقِی عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیلًا۔ إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّیْلِ ہِیَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِیلًا (73:4-6)۔ یعنی قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ ہم تم پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔ بیشک رات کا اٹھنا سخت روندنے والا ہے اور فہم کلام کے لئے نہایت خوب ہے۔

اس آیت میں  أشد وطأ کا لفظ قیامِ لیل کی نسبت سے آیا ہے۔ یعنی اس سے نفس روندا جاتا ہے، اور اقوم قیلا کا تعلق فہم کلام سے ہے۔ یعنی اس سے آدمی اس قابل بنتا ہے کہ وہ کلام کو زیادہ بہتر طریقے پر سمجھ سکے۔یہ بات بظاہر پیغمبر اسلام کے بارے میں  آئی ہے۔ تاہم پیغمبر کی اتباع کے اعتبار سے اس کا تعلق پوری امت سے ہے۔ اس میں  پیغمبر کے حوالے سے پوری امت کے لیے رزق کا سامان موجود ہے۔

قرآن کی اس آیت میں  وطأ شدید کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام رات کے وقت دیر تک کھڑے ہوکر عبادت کرتے تھے، اس سے آپ کو شدید بوجھ پڑتا تھا، گویا کہ آپ کا جسم روندا جارہا ہے۔ اس وطأ شدید کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے آپ کے اندر قول اقوم کی صلاحیت پیدا ہوتی تھی۔ اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ جسمانی تعب آدمی کے لیے ایک قسم کا زحمت میں  رحمت (blessing in disguise) ہوتا ہے۔ اس سے آدمی کی سوچ بیدار ہوتی ہے۔ اس سے آدمی کے دماغ کی کھڑکیاں کھلتی ہیں۔ اس سے آدمی کے اندر زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچنے کی صلاحیت جاگتی ہے۔ غالباً اس وطأ شدید میں  دوسرے وہ دینی اعمال بھی شامل ہیں، جن میں  آدمی کو شدید تعب کا تجربہ ہو۔ جو گویا آدمی کی شخصیت کو روند ڈالے۔ جس میں  آدمی کا یہ حال ہو کہ اس کی شخصیت گویا چکی کے دو پاٹ کے درمیان پس گئی ہے۔ اگر ایسا ہو تو وہ آدمی کے اندر اعلیٰ فہم کی صلاحیت پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom