اجماع کی حقیقت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں فرمایا تھا:ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بہما:کتاب اللہ وسنة نبیہ(موطا امام مالک، حدیث نمبر 2618)۔ یعنی میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑرہا ہوں، تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔ اس قولِ رسول سے یہ ثابت ہوا کہ مصدر شریعت صرف دوہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اس تعداد میں اضافہ کرکے ان کو تین یا چار بنالے۔
صحابہ اور تابعین کے زمانے میں دین کے بارے میں یہی تصور پایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں یہی دو چیزیں مصادر شریعت کی حیثیت رکھتی تھیں۔ لیکن عباسی خلافت کے زمانے میں فقہاء کا دور آیا۔ اس وقت یہ مان لیا گیا کہ قرآن و سنت کے علاوہ ایک اور مصدر شریعت بھی ہے، اور وہ مسلم علماء کا اجماع ہے۔فقہاء کے اس اضافے کو عام طور پر مسلمانوں کے درمیان تسلیم کرلیا گیا۔علماء کے اجماع کو مصدر شریعت کا درجہ دینا، کلی طور پر غلط نہ تھا۔ تاہم اس اجماع کی حیثیت صرف وقتی معنی میں تھی، نہ کہ ابدی معنی میں ۔ یعنی اگر مسلمانوں کے درمیان ایک مسئلہ پیدا ہو، اس پر کوئی واضح حکم پہلے سے موجود نہ ہو تو وہ علماءکی مجلس میں زیر بحث آئے گا۔ اس مباحثے کے بعد اگر علما ءکے اتفاق رائے سے ایک بات طے ہوجائے تو اس کو اجماع امت کہا جاسکتا ہے۔ لیکن شریعت کے ابدی مصدر کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک پیش آمدہ مسئلہ میں وقتی اعتبار سےشریعت کےعملی موقف کو متعین کرنے کے لیے۔
یہ پیش آمدہ مسئلے کا ایک وقتی حل ہے، وہ شریعت اسلامی کا ابدی حصہ نہیں۔ پیش آمدہ مسئلےمیں اس قسم کے’’اجماع یا اتفاق رائے‘‘ کو وقتی معنی میں قابل اتباع سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ گنجائش یقیناً باقی رہے گی کہ بعد کو نئے حالات میں علماء کوئی نیا فیصلہ دیں ۔ اس معاملے میں علماء کسی’’سابق اجماع‘‘کے پابند نہ ہوں گے۔گویا کہ اس قسم کا اجماع پیش آمدہ مسئلہ کو حل کرنے کی ایک وقتی تدبیر ہے، نہ یہ کہ اس کوہمیشہ کے لیے شریعت کا ایک مستقل مصدر (source)مان لیا جائے۔